معصوم محبت

0

راہل ایک گاؤں کا غریب لڑکا تھا، عمر کچھ 18 سال تھی، بے انتہا شریف اور سادہ مزاج تھا، اسکے والد مزدوری کرکے گھر کا خرچ چلاتے تھے، راہل کی خواہش تھی کہ شہر جاکر تعلیم حاصل کرے، لیکن اس کے والد کے پاس اتنے روپیہ نہیں تھے کے وہ اپنے لاڈلے بیٹے کی تعلیم کا خرچ اٹھا سکے، پھر بھی انہوں نے جیسے تیسے کسی سے قرض لے کر راہل کو شہر روانہ کردیا۔

آج راہل کا انجان شہر میں پہلا دن تھا۔ وہ کالج روانہ ہو گیا۔ کالج بہت بڑا تھا۔ ایک بہت بڑے علاقہ میں پھیلا کالج، اور تو اور کالج کا میدان بھی بہت بڑا اور خوبصورت تھا۔

راہل اپنی کلاس میں داخل ہوا۔ سب طلباء اس کے لئے اجنبی تھے۔ وہ خموشی سے اپنی جگہ جاکر بیٹھ گیا۔ آج کالج کا پہلا دن تھا۔ اس لئے استاد نے اپنا-اپنا تعارف کروانے کے لئے کہا۔ سب سے اخیر میں راہل نے اپنا تعارف کروایا۔

راہل کا Percentage پوری کلاس میں سب سے زیادہ تھے۔ دوسرے نمبر پر ایک لڑکی تھی، جس کا نام حلیمہ ناز تھا۔ 6 مہینے بعد Semester-Exam شروع ہو گئے۔ کیونکہ راہل ایک ہونہار طالبِ علم تھا اِس لئے اُس نے اِس بار بھی Semester-Exam میں Top کیا۔ اور حلیمہ ناز اِس بار بھی دوسرے نمبر پر تھی۔

حلیمہ بھی بہت شریف۔ سنجیدہ اور ہونہار لڑکی تھی۔ حلیمہ کے والد شہر کے بہت بڑے سوداگر تھے۔ جِن کا نام “محمد نظیر” تھا۔

دراصل راہل اور حلیمہ کے مزاج ملتے جلتے ایک جیسے ہی تھے۔ اِس لئے راہل’حلیمہ کو پسند کرنے لگا۔ لیکن راہل میں ذرا بھی ہمّت نہیں تھی۔ کے وہ حلیمہ سے کچھ کہہ سکے۔ اور دوسرا ڈر یہ تھا کے وہ ایک غریب گھر سے تعلق رکھتا تھا۔ جبکہ حلیمہ ایک امیر باپ کی شہزادی تھی۔

وقت گزرتا گیا اور Final-Exam سر پر آ گئے۔ لیکن Final-Exam کا ایک Subject ایسا تھا جس میں راہل بہت کمزور تھا۔ اور حلیمہ کو اُس Subject میں مہارت حاصل تھی۔ کیونکہ راہل فیل نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اِس لیۓ اس نے بہت ہمّت کرکے حلیمہ سے کہا…….. “حلیمہ! ” مجھے آپ کے Notes چاہیۓ۔…. میں بعد میں آپ کے Notes واپس کر دونگا۔

حلیمہ نے راہل کو Notes دے دۓ……!آخر وہ دن بھی آن پہنچا جب Final-Examکا رجلٹ آیا۔ لیکن اس بار راہل دوسرے نمبر پر تھا۔ اور حلیمہ نے پوری کلاس میں Top کیا تھا۔

راہل بڑی ہمت جُٹا کر حلیمہ کے پاس پہنچا اور کہا “مبارک ہو حلیمہ جی….آپ نے کلاس Top کیا ہے…. “!حلیمہ نے صرف جواب میں اتنا کہا “شکریہ! ” اور وہاں سے چلی گئی۔

کالج کی پڑھائی ختم ہو چکی تھی۔ حلیمہ اُس دن کے بعد کبھی نظر نہیں آئی…….. اور حلیمہ کے Notes راہل کے پاس امانت رہ گئے۔ اُس نے سوچا کے یہNotes کبھی نہ کبھی واپس کر دونگا۔

وقت گزرتا رہا اور راہل کی معصوم محبت پروان چڑھتی رہی۔ راہل کے دماغ میں بہت سے سوالات آتے رہے….. وہ سوچتا رہا کہ….. کاش میں بھی امیر گھر سے تعلق رکھتا، اور حلیمہ کے گھر شادی کے لئے رشتہ لیے جاتا۔ آخر راہل نے طے کیا کے اب میں بھی ایک بڑا آدمی بنوں گا۔اور پھر راہل Job کی تلاش میں شہر کی طرف نکل گیا۔ آخر کار راہل کو ایک بڑی کمپنی میں Job بھی مل گئی۔ اور لگاتار دن رات محنت کرنے کی بدولت وہ تین سال میں ہی کمپنی کے اونچے عہدے پر پہنچ گیا۔

اب راہل ایک بڑا آدمی بن چکا تھا۔ اُسکا گھر”جھونپڑی سے ایک عالیشان محل میں بدل گیا۔ اور پھر اُس کے ماں باپ نے کہا “بیٹے… راہل”! شادی کب کر رہے ہو۔

راہل نے والدین کو بتایا۔ مجھے ایک لڑکی پسند ہے۔ جو میرے ساتھ میرے کالج میں پڑھا کرتی تھی۔ اُس کا نام حلیمہ ہے۔ اور میں اُس لڑکی کے گھر رشتہ لیکر جانا چاہتا ہوں…… یہ بات سُن کر والدین راضی ہو گۓ۔

لیکن راہل کے ذہین میں اچانک ایک خیال آیا کہ کہیں حلیمہ کی شادی تو نہیں ہو گئی….؟پھر وہ خود ہی اپنے دل کو تسلی دینے لگا… اور سوچنے لگا کے حلیمہ تو بہت ہونہار لڑکی تھی…. اِس لئے ہو سکتا ہے کے مزید تعلیم حاصل کر رہی ہوگی، اور شاید اُس کی شادی بھی نہ ہوئی ہو۔

پھر راہل نے سوچا کہ رشتہ لے جانے سے قبل تحقیق کی جاۓ کے کہیں حلیمہ کی شادی تو نہیں ہو گئی……. اور وہ حلیمہ کے شہر کی طرف روانہ ہوا……. اُس کا سفر بےچینی سے کٹا….،

حلیمہ کے گھر کی طرف پہنچا تو راہل کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اور بے شمار خیالات راہل کو پریشان کرنے لگے۔ راہل نے پوری ہمت سے باہر کے گیٹ پر دستک دی۔ چوکیدار نے دروازہ کھولا اور پوچھا…؟

چوکیدار : کون..؟
راہل : میں!
چوکیدار : اپنا نام بتاؤ؟
راہل : ……. خموش رہتا ہے۔
چوکیدار : بھئی خاموش ہی رہو گے یا کچھ بولو گے بھی۔
راہل : …… خاموش رہتا ہے۔اور کوئی جواب نہیں دیتا۔
چوکیدار : غصہ میں کہتا ہے! “بے زبان ہو کیا”؟
راہل : سر ہلاتے ہوئے… نننہ نہیں!
چوکیدار : تو پھر جواب کیوں نہیں دیتے؟ میں تم سے تمہارا نام پوچھ رہا ہوں؟
راہل : معصومیت سے جواب دیتا ہے۔
میں……. راہل!
چوکیدار : آپکو کس سے ملنا ہے؟
راہل : مجھے “محمد نظیر سر سے ملنا ہے!

” چوکیدار راہل کو اندر لے جاتا ہے۔ اور صوفے پر بیٹھا دیتا ہے۔ اور یہ کہہ کر چلا جاتا ہے کہ انتظار کیجئے! صاحب تھوڑی دیر میں آکر آپ سے ملینگے۔” راہل صوفے پر بیٹھے ہوئے گھر کی چھت ، درو دیوار اور دیوار پر لگی تصویر کو دیکھتا ہے۔ واقعی گھر اور گھر کی درو دیوار اور درو دیوار پر لٹکی تصویریں واقعی بہت خوبصورت تھی۔

ابھی راہل گھر کی چھت، درو دیوار اور درو دیوار پر لگی تصویروں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ تھوڑی دیر میں نظیر صاحب آ گۓ۔ راہل فوراً صوفے پر سے کھڑا ہوتا ہی ہے کہ نظیر صاحب مسکراتے ہوئے سلام کرتے ہیں۔
“اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ”۔ اور ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔
راہل :وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ اور صوفے پر بیٹھ جاتا ہے۔
نطیر صاحب : کیا نام ہے بیٹا تمہارا؟
راہل : سر! میرا نام راہل ہے۔ میں اور آپکی بیٹی حلیمہ ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے۔ حلیمہ کے Notes میرے پاس امانت رہ گئی تھی۔ آج لوٹانے آیا ہوں۔

بس پھر کیا تھا اتنا سنتے ہی نظیر صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اور آنسو پوچھتے ہوۓ کہنے لگے…. بیٹا……..! تم نے بہت دیر کر دی آنے میں! حلیمہ کا دو سال پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔

اتنا سنتے ہی راہل کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آۓ۔ خود کو سنبھالا اور کہا….!
سر…..! یہ کیسے ہوا؟
نظیر صاحب نے کہا…!
بیٹا..! حلیمہ کو بِلڈ کینسر Blood cancer تھا۔ ہم نے بہت کوشش کی۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں سے بھی علاج کروایا۔ لیکن ہم اُسے بچا نہیں پاۓ۔ خیر یہ اللہ کی مرضی تھی! اور ہاں! حلیمہ نے ایک خط شفاخانے سے لکھ کر دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ اگر کوئی راہل نامی شخص آئیں تو یہ خط اسے دے دینا، نظیر صاحب خط لاکر راہل کو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ لو بیٹا یہ خط تمہارے لۓ ہے۔ اور ہم نے اس خط کو کبھی کھول کر نہیں دیکھا….!

راہل کی دھڑکن تیز ہو گئی….. نظیر صاحب نے وہ خط لاکر راہل کو دے دیا۔…….. راہل نے کانپتے ہاتھوں سے خط لیا اور پوچھا….!
سر…! حلیمہ کی قبر کہاں ہے؟

نظیر صاحب نے بتایا کہ پاس کے قبرستان میں بڑے نیم کے درخت کے پاس حلیمہ کی قبر ہے۔

راہل، نظیر صاحب کے گھر سے نکل کر قبرستان پہونچا!
وہاں خاموشی ہی خاموشی تھی، وہ لڑکھڑاتے قدموں سے نیم کے درخت کے پاس پہونچا اور دیکھا کہ وہاں بڑی بڑی جھاڑیاں اُگ گئی تھی۔ راہل اپنے ہاتھوں سے جھاڑیوں کو صاف کر ہی رہا تھا کہ اچانک اُسکی نگاہ ایک قبر پر پڑی، جس پر لکھا تھا!

“مرحومہ حلیمہ خانم بنت محمد نظیر”

راہل کی روح کانپ گئی، اور آنکھوں سے بے اختیار آنسوؤں کا سیلاب جاری ہو گیا…….. وہ زمین پر بیٹھ گیا، اور جیب سے خط نکال کر پڑھا۔ جس پر لکھا تھا۔

میرے دل کے شہزادے میرے “راہل”
اسلام علیکم

میرے شہزادہ! جب تم یہ خط پڑھ رہے ہونگے تو اُس وقت میں اِس دنیا میں نہیں رہوں گی، راہل میں جانتی ہوں تم مجھ سے بہت محبت کرتے ہو۔ تم نے مجھ سے یہ بات کبھی نہیں کہی۔ لیکن میرے دل نے یہ محسوس کر لیا ہے۔
سنو…! میرے دل کے شہزادے!
میں بھی تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔ لیکن میں مجبور ہوں۔ مجھے بِلڈ کینسر ہے۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔ تمہاری خاموش اور معصوم محبت میرے ساتھ ہمیشہ رہیگی۔
سنو راہل…!

مجھے معاف کر دینا میں تمہیں کبھی بتا نا سکی کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔میرے لئے تم ہمیشہ دعا کرنا..!
سنو میری جان! میں تو مر جاؤں گی لیکن میری محبت تمہارے لیے صرف تمہارے لیے ہی ہمیشہ زندہ رہیگی۔ محبت تو نہیں مرتی نا راہل۔ محبت تو زندہ رہتی ہے۔ ہاں زندہ ہی رہتی ہے!

راہل اپنا خیال رکھنا
الوداع
تمہاری حلیمہ ناز

راہل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، بہت دیر تک قبر کے پاس بیٹھا رہا۔ اور شام کے وقت اپنے دل میں حلیمہ کی معصوم محبت اور اپنی سُرخ آنکھوں میں آنسو لۓ گھر لوٹ آیا!