کلاسکیت کی تعریف

0

کلاسیکیت فرانسیسی زبان میں Classiquسے درسی جماعتوں کا تصوّر کام میں لایا جاتا ہے۔ لاطینی زبان میں Classicus سے اعلا طبقہ اور بلند مرتبے پر فائز افراد یا گروہ سے لیا جاتا ہے۔ لاطینی میں Classicکے معنی ہجوم کے ہیں۔ Classicsسے جنگی گروہ کا وہ حصّہ مراد لیا جاتا ہے جو بہترین شہ سواروں سے لیس ہوتا تھا۔

ہندستان میں بالعموم ، اردو زبان میں بالخصوص گفتگو کرتے ہوئے ہم کلاسیکیت کو ایک ساتھ قدیم اور اعلا کے معنوں میں قابلِ غور سمجھتے ہیں۔ جب ہم کسی ادبی نمونے کو کلاسیکی قرار دیتے ہیں تو اس کا یہ بھی مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنی مثال آپ ہے اور دوسرے نمونوں سے برتر اور اعلا و ارفع ہے۔ یہ بھی بات مسلّمہ ہے کہ وہ نمونہ بالعموم قابلِ اتباع ہوگا۔ فرانسیسی نقّاد سانت بیو(۱۸۶۹۔۱۸۰۴) نے اپنے مشہور مضمون ’’کلاسیک کیا ہے‘‘؟ میں یہ کہا ہے:

’’ عام طور پر ’’کلاسیک‘‘ کا لفظ اس قدیم مصنّف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی حد درجہ تعریف وتوصیف ہوچکی ہو، جس کی جامعیت اور انفرادیت مسلّم ہو اور جس کی تعریف سے ہر کس وناکس واقف ہو۔ کلاسیک ایک ایسے قدیم مصنّف کو کہا جاتا ہے کہ جو اپنے مخصوص اسلوب میں اپنا ثانی نہ رکھتا ہو اور اس کی حیثیت مستند اور مسلّم ہو۔‘‘ ؂۱

سانت بیو نے اس کلاسیک اور کلاسیکی کی مزید تشریح بھی کی ہے۔ ان کے الفاط ملاحظہ ہوں:
’’ رومن طبقۂ خواص کے ان شہریوں کوکلاسیکی (classici (کہتے تھے جن کی کم سے کم آمدنی ایک مقرّرہ حد سے تجاوز کرتی ہو، اور جن شہریوں کی آمدنی اس مقرّرہ حد سے کم ہوتی تھی وہ طبقۂ خواص سے خارج سمجھے جاتے تھے اور انھیں کلاسیم (classem ( کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ‘‘ ؂۲

ان تو جیہات سے ان لفظوں کے معانی کا دائرۂ کار سمجھ میں آجاتا ہے۔ بشریات، فلسفہ، تاریخ اور ادب جیسے مختلف شعبہ جات میں ان اصطلاحوں کی موجودگی سے رواجِ عام کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یوں بھی مختلف علوم وفنون میں ایک اصطلاح الگ الگ معانی میں استعمال کی جا سکتی ہے ۔ اس لیے کلاسیکیت یا کلاسیک کے سلسلے سے سانت بیو کی تعریف نہایت کارآمد ہے۔ سانت بیوکا کہنا ہے کہ classicus کے لفظ کو ادب کے حوالے سے پہچاننے میں دوسری صدی عیسوی کے مصنّف آلس جیلئں کی خدمات لائقِ توجّہ ہیں۔ اس نے اس لفظ کے مخصوص معنی متعیّن کرنے کی کوشش کی اور اسے ادب اور مصنّفین سے وابستہ کرنے میں وہ کامیاب ہوا۔ اس دائرے میں اس نے ایسے مصنّفین کو شامل کیاجن کی تحریریں قابلِ ذکر تھیں اور ان کی تصنیفات کی سطح اعلا اور عمومی مزاج سے الگ تھی۔ لیکن اسی کے ساتھ آلس جیلئں نے کلاسیک کی تعریف میں اشرافیت کی کیفیات شامل کرتے ہوئے کلاسیکی مصنّفین کی فہرست سے عوامی راگ اور رنگ احتیار کرنے والے مصنّفین کو الگ تھلگ کر دیا۔

سانت بیو نے آلس جیلیءں کے تجزیے کی وضاحت کرتے ہوئے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ کلاسیک کی تاریخی اہمیت سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ملاحظہ ہو:
’’اس بات سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک تو یہ کہ وہی مصنّف اس ذیل میں آسکتا تھا جوطبقۂ خواص کے مذاق کی ترجمانی کرتا ہو، اور دوسرے یہ درجہ بندی اسی وقت ممکن ہے جب کسی زبان کاادب اتنی ترقّی کر چکا ہو کہ اس میں ادب اورادبی اقدار کی درجہ بندی کی جا سکے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ غیر ترقّی یا فتہ ادبیات میں یہ درجہ بندی ممکن نہیں ہے۔‘‘ ؂۳

تحریر محمد ذیشان اکرم