ترقی پسند تحریک اور اردو غزل

ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک اہم تحریک ہے۔ اس تحریک کی بنیاد لندن میں رکھی گئی۔ 1930ء میں لندن میں چند ہندوستانی طالبعلموں نے اپنے ملک کے سیاسی و سماجی حالات کے تناظر میں انسانیت کی خدمت کا خواب دیکھا اور انفرادی طور پر سعی و کوشش کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر تمام زبانوں کے تخلیق کاروں کو ہمراہ لے کر ہندوستانیوں کو پستی، غلامی، مظلومی اور استحصال سے آزاد کرنے کا عزم کیا۔

اس تحریک کے پس منظر کو دیکھا جائے تو اس کا آغاز 1917ء روس میں لینن کی تحریک سے ہی ہوچکا تھا جنہوں نے کارل مارکس کے نظریات سے متاثر ہو کر روس میں انقلاب برپا کیا تھا۔ دھیرے دھیرے یہ تحریک عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کرنے لگی۔ دیگر ادبا و شعرا اس کا استقبال کرنے لگے۔ اسی عہد میں سجاد ظہیر اور کچھ دیگر ہندوستانی طلبا بغرض حصولِ تعلیم لندن میں مقیم تھے۔

یہ حضرات اس تحریک سے متاثر ہوئے اور انہوں نے ہندوستان میں بھی اس تحریک کو قائم کرنے کا ارادہ کیا اور تجاویز تیار کر کے ہندوستان میں موجود مختلف ادیبوں کو بھیجا جن میں اہم نام منشی پریم چند اور اختر حسین رائے پوری وغیرہ کا ہے۔ ان سبھی حضرات نے اس تحریک کا استقبال کیا اور 1936ء میں لکھنؤ میں اس تحریک کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت پریم چند نے کی اور ان کے خطبہ ” ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہوگا“ نے کافی مقبولیت حاصل کی اور اسٹیج سے بڑی تعداد میں شعرا و ادبا اکٹھے ہو گئے جنہوں نے عوام اور ان کے مسائل کو اپنے شعر و ادب کا موضوع بنایا اور محبوب کی بجائے ان کی غزلوں میں مزدور اور کسان نظر آنے لگے۔

شاعر اور ادیب ہمارے معاشرے کا حساس طبقہ ہوتے ہیں۔ معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں سے وہ پریشان ہوتے ہیں اور اپنی پریشانی اور بے چینی کا اظہار تحریروں کی صورت میں کرتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے پیغام کو پھیلانے میں بھی ان ادیبوں اور شاعروں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس تحریک کے زیرِ اثر قلمکاروں نے سماجی انصاف اور مساوات کے پیغام کو عام کرنا شروع کیا۔ اس کی پیروی نظم اور نثر دونوں میں ملتی ہے۔

ترقی پسند شعرا میں فیض احمد فیض، مجروح سلطانپوری، ساحر لدھیانوی، مجاز لکھنوی، معین احسن جذبی، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، مخدوم محی الدین اور جانثار اختر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ دیگر دوسری اصناف کی طرح اردو غزل نے بھی ترقی پسند تحریک کے اثرات قبول کیے ہیں۔ ترقی پسندوں نے اس صنف کو جاگیردارانہ عہد کی پیداوار قرار دیا۔ چوں کہ ترقی پسندوں کا بنیادی مقصد شاعری میں زندگی کے مقاصد کو بیان کرنا تھا لہذا انہوں نے اپنے مقاصد کے پرچار کے لیے غزل کو بڑی حد تک کارآمد صنف کے طور پر قبول کیا۔ ترقی پسند ادب کے تخلیق کرنے کے ضابطے مندرجہ ذیل تھے۔

1- ادب ایک آلہ کار

ترقی پسندوں نے بار بار اور واضح طور پر یہ اعلان کیا کہ ادب کو جماعت کا خدمت گزار ہونا چاہیئے اور اس سے زندگی کو سنوارنے میں مدد ملنی چاہیے۔

2- ادب عوام کے لیے

ادب کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں بلکہ صاف لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ عوام کو فائدہ پہنچے۔ ترقی پسند ادیب اس پر ہمیشہ زور دیتے رہے کہ ان کا ادب عوامی ادب ہے۔

3- ادیب جانبدار

ترقی پسند ادب کی بنیاد اس پر ہے کہ ظلم و نا انصافی کی اس دنیا میں ادیب غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک حساس، درد مند دل رکھتا ہے اور محنت کشوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہے۔

4- ترقی پسندی اور اشتراکیت

ترقی پسندوں نے کبھی اِسے چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ اشتراکی ہیں۔ سجاد ظہیر نے کہا تھا کہ وہ سرمایہ داری نظام جس نے دنیا کو برباد کر رکھا ہے اشتراکیت کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔

5- سیاست میں عملی حصہ

یہ بھی کہا گیا کہ صرف قلمی خدمت کرکے ادیب اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتا بل کہ اسے مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیے اور ان کی حمایت میں جو تحریکیں چلیں ان میں عملی حصہ لینا چاہیے۔

اس تحریک کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ شاعر و ادیب موضوع اور مواد کی طرف زیادہ توجہ کرنے لگے۔ ادب کو فروغ ہوا کیونکہ ادب لکھنے کے لیے ایک اہم محرک ہاتھ آگیا۔ شاعری، افسانہ، ناول، ڈرامہ وغیرہ تمام اصناف پر ترقی پسند تحریک کا اثر انداز ہوئی۔ غزل کی انفرادیت اور طاقت کو محسوس کرتے ہوئے غزل میں ترقی پسندوں نے سیاسی مضامین، مزدوروں کی حمایت، اجتماعی مسائل اور مظالم آمیز مسائل کے مضامین کو شامل کیا۔ چنانچہ فیض احمد فیض، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی اور معین احسن جذبی جیسے شعرا نے ترقی پسند غزلیں لکھیں اور اپنے جذبات و خیالات کو ولولہ انگیز انداز میں پیش کیا۔

ترقی پسند شعرا میں جنہوں نے غزل گوئی میں اہم مقام حاصل کیا ان میں فیض احمد فیض کا نام قابل ذکر ہے۔ فیض اگرچہ بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے لیکن انقلاب سے بہت متاثر تھے۔ ان کی غزلوں میں احساس کی شدت پائی جاتی ہے۔ فیض کے یہاں جو غزل کی ارتقا کی کیفیت ملتی ہے وہ کسی اور کے یہاں نہیں ملتی۔ انہوں نے پرانے علائم کو نئے معنیٰ میں استعمال کیا۔ وہ محبوب کہہ کر ملک و قوم مراد لیتے ہیں اور رقیب کہہ کر ملک و قوم کا دشمن مراد لیتے ہیں۔

صبا نے پھر در زنداں پہ آکے دی دستک دی
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ جگر میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
چمن میں غارتِ گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا سو گوار گزری ہے

مجروح سلطان پوری بھی ان شعرا میں سے ہیں جنہوں نے ظلم کے خلاف اور مظلوموں کی حمایت میں آواز بلند کی۔ انہوں نے اردو غزل کو ایک نیا انداز دیا۔ مجروح کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی شاعری کا وہ حصہ ہے جس کا موضوع خالص سیاست ہے۔ مجروح کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھے اور مزدوروں اور عوام کے مسائل کو خوب جانتے تھے اور کئی بار جیل بھی گئے تھے جس کا اظہار ان کی غزلیہ شاعری میں جابجا ملتا ہے۔

دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
پارۂ دل ہے وطن کی سرزمیں مشکل یہ ہے
شہر کو ویراں کہیں یا دل کو ویراں نہ کہیں

ترقی پسند تحریک سے متاثر ہونے والے اور غزلوں کی بیداری کا ذریعہ بنانے والے شعرا میں ایک نام اسرار الحق مجاز کا بھی ہے۔ مجاز کی غزلوں میں بھی رومانیت نظر آتی ہے مگر پھر بھی مجاز اس کو انقلابی بنا لیتے ہیں۔ مجاز اپنی غزلوں میں انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی اور اپنے عہد کے حالات کو اچھی طرح بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔

یہ رنگ بہار عالم ہے کیوں فکر ہے تجھ کو اے ساقی
محفل تو تری سونی نہ ہوئی کچھ اٹھ بھی گئے کچھ آ بھی گئے
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں ہی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے

ترقی پسند غزل گو شعرا میں ایک نام معین احسن جذبی کا بھی ہے۔ یہ معتدل مزاج کے شاعر تھے۔ انہوں نے شاعری میں مزدوروں، محنت کشوں، غریبوں اور کسانوں کی آواز کو بلند کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں میرؔ، فانیؔ اور اصغر ؔ کا بھی رنگ نظر آتا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔

اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
تمہارے جلوؤں کی رنگینیوں کا کیا کہنا
ہمارے اجڑے ہوئے دل میں ایک بہارِ نو ہے

ان شعرا کے علاوہ علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، جان نثار اختر اور مخدوم محی الدین وغیرہ ایسے شاعر ہیں جنہوں نے ترقی پسند تحریک کے اس دور میں اردو غزل کی روایت کو برقرار رکھا اور ہر طرح کے مسائل کو اپنی شاعری کے موضوعات بنا کر پیش کیا۔ اس عہد کے ترقی پسند شاعروں سے متاثر ہو کر برصغیر ہندو پاک کے بہت اچھے شاعروں نے بھی ترقی پسند لب و لہجہ اختیار کیا کیونکہ وہ اس وقت کی ضرورت تھی کہ غریبوں اور مظلوموں پر ہونے والے ظلم کے خلاف لکھا جائے اور قابل تعریف یہ بھی ہے کہ ترقی پسند اردو غزل کے شعرا میں بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی ترقی پسند غزل میں کلاسیکل غزل کو زندہ رکھا اور جدید افکار سے غزل کو سجائے رکھا۔ جن میں اختر سعید خان، تاج بھوپالی، فیض احمد فیض اور معین احسن جذبی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس طرح ترقی پسندوں نے مقصدیت کے باوجود غزل کی غزلیت کو اور کلاسیکل غزل کی بعض قدروں کو قائم رکھنے میں بھی کسی حد تک اپنا کردار نبھایا ہے۔

تحریر ساجد منیر (ریسرچ اسکالر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری، جموں و کشمیر)