سر میں سودا بھی نہیں،دل میں تمنا بھی نہیں

0

غزل

سر میں سودا بھی نہیں،دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں
دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اس جلوہ گاہِ ناز سے اُٹھتا بھی نہیں
مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ!اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے،ایسا بھی نہیں
آہ یہ مجمع احباب،یہ بزم خاموش
آج محفل میں فراقؔ سخن آرا بھی نہیں

تشریح

سر میں سودا بھی نہیں،دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

غزل کے مطلعےمیں فراق کہتے ہیں کہ محبت میں کچھ ایسے زخم کھائے ہیں کہ اب اس محبت کا بھوت سر سے اتر گیا ہے۔اب سر میں عشق کی دیوانگی باقی نہیں رہی ہے اور دل میں اب عشق کی چاہ بھی نہیں۔ اب یہ آرزو بھی دل میں باقی نہیں رہی۔تاہم ہم کو اپنی محبت کرنے کا کچھ اعتبار بھی نہیں ہے۔ اب ترک کی ہے کب پھر شروع کر دیں،کچھ بھروسا نہیں۔

دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اس جلوہ گاہِ ناز سے اُٹھتا بھی نہیں

شاعر کہتا ہے کہ عجب معاملہ ہے کہ ہمارے دل کو ہمارا محبوب نہ دوستوں میں گنتا ہے اور دشمنوں میں۔یعنی وہ نہ ہم کو دشمنوں میں سمجھتا ہے اور نہ دوستوں میں ایک طرح کی عجیب بے التفاتی روا رکھی جاتی ہے۔مگر نہ جانے کیوں ہمارا دل ہے کہ اس کی جلوہ گاہ سے ہٹنا بھی نہیں چاہتا۔وہ اس کے در سے اٹھنا نہیں چاہتا۔

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ!اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں

شاعر کہتا ہے کہ کسی حالت زار پر رحم کر کے اس سے کچھ مہربانی کر دینا ایک بات اور محبت دوسری بات۔اب وہ اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے محبوب میری قابل رحم حالت پر تم نے جو کرم روا رکھا ہے،وہ میں جانتا ہوں کہ وہ محبت نہیں۔مجھے تو تیرا وہ مجھ سے بے وجہ ناراض رہنا گوارا تھا مگر افسوس کہ اب وہ تمہارا بے جا غصّہ بھی ہم پہ باقی نہیں رہا ہے۔گویا رحم محبت کی علامت نہیں بلکہ غصّہ،شکاتیں وغیرہ محبت میں جائز ہیں۔

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے،ایسا بھی نہیں

شاعر کہتا ہے کہ ایک زمانے سے تیری چاہ ہمارے دل میں پیدا نہیں ہوئی۔بلکہ تمہاری یاد تک ہمارے دل میں نہیں آئی مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم تمہیں بھول گئے ہوں۔ہم اب بھی تیرے چاہنے والے ہیں:

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
آہ یہ مجمع احباب،یہ بزم خاموش
آج محفل میں فراقؔ سخن آرا بھی نہیں

مقطعے میں شاعر کہتا ہے کہ افسوس! یہ دوستوں کا مجمع اور محفل میں چھائی یہ خاموشی اور یہ اس لیے ہے کہ محفل کو گل و گلزار بنانے والے،سخن کو سنوارنے والا فراق آج محفل میں موجود نہیں ہے۔گویا بزم شعر و سخن اس کے دن سے تھی۔وہ نہیں رہا تو اس بزم پر خاموشی طاری ہوگئی ہے۔