کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

0

غزل

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق کا دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
ہزار بار زمانہ اِدھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی
خوشا اشارہ پیہم زہے سکوت نظر
دراز ہو کے فسانہ ہے مختصر پھر بھی
پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا
وہ کوچہ روکش جنت ہو، گھر ہے گھر پھر بھی
تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اُتر گیا رگِ جاں میں یہ نیششر پھر بھی
اگر چہ بے خودی عشق کو زمانہ ہوا
فراقؔ کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی

تشریح

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق کا دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

غزل کے مطلعےمیں شاعر کہتا ہے کہ ویسے تو کوئی کسی کا عمر بھر کے لیے نہیں ہوتا۔ راستے ہی میں ساتھ چھوٹ جاتا ہے۔ مگر پھر بھی لوگ محبت بھی کرتے ہیں، ساتھ بھی نبھاتے ہیں۔ اسی طرح یہ حُسن و عشق کیا ہے، محض ایک دھوکہ ہے۔ یہ سب جانتے ہیں پھر بھی اس دھوکے میں رہنا اچھا لگتا ہے۔ یہ دھوکہ دلکش و حسین لگتا ہے۔

ہزار بار زمانہ اِدھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی

شاعر کہتا ہے کہ ایک دو بار نہیں بلکہ ہزاروں بار اہل زمانہ اس طرف سے گزر چکے ہیں مگر نہ جانے تمہاری اس رہ گزر میں وہ کون سی بات ہے کہ جتنی بار اِدھر سے گذرتے ہیں اُتنی بار یہ نئی سی لگتی ہے۔ کہ اس کو بار بار دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔

خوشا اشارہ پیہم زہے سکوت نظر
دراز ہو کے فسانہ ہے مختصر پھر بھی

شاعر کہتا ہے کہ واہ کیا خوب پیہم اِشارہ ہے اور مرحبا ہے اس نظر کے سکوت پر جو خاموشی میں باتیں کرتی ہے۔گویا دراز ہوتے ہوئے بھی یہ قصّہ، یہ فسانہ بہت مختصر ہے۔یعنی محبوب کے برابر اشارے اور نظر کی خاموشی در پردہ طویل فسانے سے کم نہیں ہے مگر یہ خاموشی قصّے کو نہایت مختصر بنا دیتی ہے۔

پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا
وہ کوچہ روکش جنت ہو، گھر ہے گھر پھر بھی

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے کوچے میں بہت کشش ہوتی ہے۔محبت کے جنون میں بہت سے دیوانے وہاں پڑے رہتے ہیں۔مگر وہ اجنبی وہاں کتنی دیر پڑے رہیں گے۔گھر بلآخر گھر ہے، لوٹ آئیں گے۔کیونکہ وہ گلی کوچہ بہت حسین و دلکش سہی، روکش جنت ہی کیوں نہ ہو مگر پھر بھی گھر کا بدل وہ کوچہ نہیں ہو سکتا۔لہذا غریب الوطن اجنبی لوگ وہاں سے پلٹ رہے ہیں اور ان کو پلٹنا ہی تھا۔

تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اُتر گیا رگِ جاں میں یہ نیششر پھر بھی

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی نگاہوں کا تیر کچھ ایسا نہیں جس سے بچا جا سکے۔ہم نے اپنی تمام تر زندگی اس کوشش میں صرف کردی کہ تمہاری ان نگاہوں کے تیر سے بچے رہیں مگر پھر بھی وہ تیر ہمارے لرگ و جاں میں اتر ہی گیا۔گویا ہم خود کو تمہاری نگاہوں سے نہیں بچا سکے۔

اگر چہ بے خودی عشق کو زمانہ ہوا
فراقؔ کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی

غزل کی مقطعے میں فراق کہتے ہیں کہ اے فراق اگرچہ ایک زمانے سے ہم عشق میں بے خود ہو گئے ہیں۔نہ ہمیں اپنا ہوش ہے نہ کسی دوسرے کا مگر پھر بھی محبوب کی وہ شوخ اور جادو بھری نظر اپنا کام کرتی رہی اور ہمیں مزید بے خود کرتی رہی۔