مژگان تر ہوں،یا رگ تاک بریدہ ہوں

0

غزل

مژگان تر ہوں،یا رگ تاک بریدہ ہوں
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں، غرض آفت رسیدہ ہوں
ہر شام، مثلِ شام ہوں میں تیرہ روزگار
ہر صبح، مثل صبح گریباں دریدہ ہوں
تو چاہتی ہے تو تپش دل کہ بعد مرگ
کُنج مزار میں بھی نہ میں، آرمیدہ ہوں
کرتی ہے بوئے گُل تو مرے ساتھ اختلاط
پر آہ ! میں تو موج نسیم وزیدہ ہوں
اے درد !جا چکا ہے مرا کام ضبط سے
میں غم زدہ تو قطرۂ اشک چکیدہ ہوں

تشریح

پہلا شعر

مژگان تر ہوں،یا رگ تاک بریدہ ہوں
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں، غرض آفت رسیدہ ہوں

شاعر کہتا ہے کہ غم کی زیادتی کے سبب سے چاہے پلکیں تر کیے ہوئے یا انگور کی خستہ بیل کی طرح ہوں۔جو کچھ بھی ہو مراد یہ ہے کہ آفتوں کا مارا ہوا ہوں۔

دوسرا شعر

ہر شام، مثلِ شام ہوں میں تیرہ روزگار
ہر صبح، مثل صبح گریباں دریدہ ہوں

شاعر کہتا ہے کہ غموں کی زیادتی کے سبب سے ہر شام، شام کی سیاہی کی طرح سیاہ بختی میرا مقدار ہوتی ہے اور ہر صبح، صبح کی طرح میرا گربیان تار تار ہوتا ہے۔

تیسرا شعر

تو چاہتی ہے تو تپش دل کہ بعد مرگ
کُنج مزار میں بھی نہ میں، آرمیدہ ہوں

شاعر کہتا ہے موت کے بعد بھی جو میرے دل کی تپش باقی ہے وہ یہ چاہتی ہے کہ موت کے بعد قبر میں بھی میں آرام سے نہ رہ پاؤں، کہ دل میں اگر حرارت رہے گی تو بے قرار بھی رہے گی۔

چوتھا شعر

کرتی ہے بوئے گُل تو مرے ساتھ اختلاط
پر آہ ! میں تو موج نسیم وزیدہ ہوں

کہ اے موج گل، اے بہار تو میرے ساتھ اختلاط یعنی رابطہ کو بڑھاتی ہے مگر افسوس کے خذاں میں تو صُبح کی نرم اور معطر ہوا کا مارا ہوا ہوں۔

پانچواں شعر

اے درد !جا چکا ہے مرا کام ضبط سے
میں غم زدہ تو قطرۂ اشک چکیدہ ہوں

غزل کے مقطعے میں شاعر کہتا ہے کہ اے درد میرا اب ضبط یعنی صبر سے کام چلنے کا نہیں ہے۔اب صبر کام کیا آئے گا کہ غموں کا مارا ہوا ہوں۔میں اس اشک کی طرح ہوں جو آنکھوں سے گر چکا ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔