ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں

0

غزل

ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
پاتا نہیں ہوں تب سے میں اپنی خبر کہیں
آجائے ایسے جینے سے اپنا تو جی بہ تنگ
جیتا رہے گا کب تلک؟ اے خضر! مر کہیں
پھرتی رہی تڑپتی ہی عالم میں جا بہ جا
دیکھا نہ میری آہ نے روئے اثر کہیں
یوں تو نظر پڑے ہیں دل افگار اور بھی
دل ریش کوئی آپ سا دیکھا نہ پر کہیں
ظالم!جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ، ولے
پچھتاوے پھر تو آپ ہی، ایسا نہ کر کہیں

تشریح

پہلا شعر

ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
پاتا نہیں ہوں تب سے میں اپنی خبر کہیں

شاعر کہتا ہے کہ محبوب بڑا مغرور ہے۔ کبھی سیدھے منہ بات نہیں کرتا،یاد کیا کرے گا۔پر نہ جانے کیسے بھولے سے اس نے مجھے کبھی یاد کر لیا تھا۔ یہ اس کا سر ہے کہ جب سے میں بے خود ہو گیا ہوں خود اپنی خبر مجھے نہیں ہے۔

دوسرا شعر

آجائے ایسے جینے سے اپنا تو جی بہ تنگ
جیتا رہے گا کب تلک؟ اے خضر! مر کہیں

خضر ایک پیغمبر جن کی نسبت مشہور ہے کہ انھوں نے آبِ حیات پی رکھا ہے اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ نکُتہ اس شعر میں یہ ہے کہ مسّرت کے ساتھ اگر غم نہ ہو تو خوشی کا احساس نہیں ہوتا۔ لہٰذا زندگی کے ساتھ اگر موت نہ ہو تو زندگی بے لطف ہو جاتی ہے۔ اب شاعر حضرت خضر سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ایسی بے لطیف زندگی کیوں کر جیتا ہے،کیوں نہیں مر جاتے،آخر کب تک جیو گے۔ہمارا جی تو ایسی بے لطیف زندگی جینے سے بیزار ہو جاۓ۔

تیسرا شعر

پھرتی رہی تڑپتی ہی عالم میں جا بہ جا
دیکھا نہ میری آہ نے روئے اثر کہیں

شاعر کہتا ہے کہ ہمارے مقدر کا اندازہ لگائیے۔ سنتے ہیں کہ آہوں میں اثر ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے اس دل سے نِکلی آہیں دنیا میں جگہ جگہ بھٹکتی پھرتی رہیں۔

چوتھا شعر

یوں تو نظر پڑے ہیں دل افگار اور بھی
دل ریش کوئی آپ سا دیکھا نہ پر کہیں

شاعر کہتا ہے کہ ویسے تو محبت میں بہتوں کی بُری حالت دیکھی ہے، زخمی تن ان کے دیکھے ہیں۔ لیکن آپ جیسی حالت کا عاشق کہ جس کا دل ریشہ ریشہ ہو گیا ہو، کہیں نہیں دیکھا۔

پانچواں شعر

ظالم!جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ، ولے
پچھتاوے پھر تو آپ ہی، ایسا نہ کر کہیں

محبوب چونکہ ظلم کرتا ہے لہٰذا استعارتاً شاعر اس سے ظالم کہہ کر خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ پر تو جور و وفا جو چاہے کرلے لیکن کچھ ایسا ویسا مت کرنا کہ جس پر خود تجھے بعد میں پچھتانا پڑے۔