آنکھوں کی راہ ہر دم اب خوں ہی رواں ہے

0

غزل

آنکھوں کی راہ ہر دم اب خوں ہی رواں ہے
جو کچھ ہے میرے دل میں، منھ پر مرے عیاں ہے
غنچہ ہے گرفتہ،گل کا ہے چاک سینہ
گُلشن میں ہیں تو پھر کچھ آسودگی کہاں ہے
آہوں کی کشمکش میں کہیں دیکھیو نہ ٹوٹے
تارِ نفس سے اے دل! وابستہ میری جاں ہے
گُمنام اب جہاں میں مجھ سا نہیں ہے کوئی
عنقا کا نام تو ہے، ہر چند بے نشاں ہے
موت موت کی تمنا اے درد! ہر گھڑی کی
دنیا کو دیکھ تُو بھی تُو تو اب بھی جواں ہے

تشریح

پہلا شعر

آنکھوں کی راہ ہر دم اب خوں ہی رواں ہے
جو کچھ ہے میرے دل میں، منھ پر مرے عیاں ہے

محبوب کے ظُلم و ستم کے سبب دل کا خون ہو چکا ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ ہماری آنکھوں میں اب آنسو نہیں ہیں بلکہ اس کی جگہ آنکھوں سے خون ہی بہہ رہا ہے۔ لہٰذا چہرے پر خون ہے گویا جو حالت ہمارے دل کی ہے وہ چہرے سے صاف ظاہر ہے۔

دوسرا شعر

غنچہ ہے گرفتہ،گل کا ہے چاک سینہ
گُلشن میں ہیں تو پھر کچھ آسودگی کہاں ہے

شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی سکون و آرام سے نہیں ہے۔ غنچے کو دیکھئے کہ وہ دل گرفتہ ہے،رنجیدہ ہے۔پھول کو دیکھئے کہ اس کا سینہ بھی چاک چاک ہے۔اب یہ دونوں گلشن میں تو ہیں مگر اِنھیں آسودگی کہاں ہے۔

تیسرا شعر

آہوں کی کشمکش میں کہیں دیکھیو نہ ٹوٹے
تارِ نفس سے اے دل! وابستہ میری جاں ہے

شاعر کہتا ہے کہ سانسوں کی تار سے ہماری جان بندھی ہوئی ہے اور محبوب کے ظلم و ستم سے دل بہت تکلیف میں ہے۔لہذا آہیں نکل رہی ہیں۔اب ان آہوں کی کشمکش سے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری سانسوں کا تار ہی ٹوٹ جاۓ اور ہمارا کام تمام ہو جائے۔

چوتھا شعر

گُمنام اب جہاں میں مجھ سا نہیں ہے کوئی
عنقا کا نام تو ہے، ہر چند بے نشاں ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھ جیسا گُم نام دنیا میں کوئی دوسرا نہیں ہے۔دنیا کی کوئی شے ایسی نہیں ہے جو میری طرح گُم نام ہے۔جس کا نام تک کوئی نہیں جانتا ہو۔عنقا ایک خیالی پرندہ ہے۔ اگرچہ عنقا حقیقت میں نہیں ہے،خیالی ہے تاہم اس کا نام تو ہے۔

پانچواں شعر

موت موت کی تمنا اے درد! ہر گھڑی کی
دنیا کو دیکھ تُو بھی تُو تو اب بھی جواں ہے

اے درد تو ہر گھڑی موت کی خواہش مت کیا کر۔یہ دنیا دیکھنے کی چیز ہے اور تُو تو ابھی جوان ہے‌ دنیا کو دیکھ،دنیا کی رنگینیوں کو دیکھ اور اپنی زندگی مزے سے جی۔