یوں ہی ٹھہری کہ ابھی جائیے گا

0

غزل

یوں ہی ٹھہری کہ ابھی جائیے گا
بات جو ہو گی ،سو فرمائیے گا
میں جو پوچھا، کبھو آؤ گے؟کہا
جی میں آ جائے گی، تو آئیے گا
میں خُدا جانے یہ کیا دیکھوں ہوں
آپ کچھ جی میں نہ بھرمائیے گا
میری ہونے سے عبث رُکتے ہو
پھر اکیلے بھی تو گھبرائیے گا
کہیں ہم کو بھی، بھلا لوگوں میں
پھرتے چلتے نظر آئیے گا
درد! ہم اس کو تو سمجھائیں گے پر
اپنے تئیں آپ بھی سمجھائیے گا

تشریح

پہلا شعر

یوں ہی ٹھہری کہ ابھی جائیے گا
بات جو ہو گی ،سو فرمائیے گا

عاشق محبوب کے پاس بیٹھا ہے۔ جانے کی اجازت طلب کی تو یہی طے ہوا کہ ابھی چلے جائیے گا،اتنی جلدی بھی کیا ہے؟جو بات دل میں ہو تو وہ ارشاد فرماتے جائیے گا۔

دوسرا شعر

میں جو پوچھا، کبھو آؤ گے؟کہا
جی میں آ جائے گی، تو آئیے گا

درد کہتے ہیں کہ میں نے محبوب سے پوچھا کہ کبھی ہمارے ہاں بھی آؤ گے تو اس نے کہا کہ آپ دل میں آئے تو آجانا۔ ہم سے نہیں آیا جائے گا۔

تیسرا شعر

میں خُدا جانے یہ کیا دیکھوں ہوں
آپ کچھ جی میں نہ بھرمائیے گا

شاعر محبوب سے مخاطب ہے۔ کہتا ہے کہ مجھے کہاں اتنا ہوش ہے جو کچھ دیکھوں۔ میں نے یہ کیا دیکھا ہے خُدا جانتا ہے، مجھے معلوم نہیں۔ آپ کچھ جی میں مت لائیے، پشمیان مت ہوئیے۔

چوتھا شعر

میری ہونے سے عبث رُکتے ہو
پھر اکیلے بھی تو گھبرائیے گا

شاعر کہتا ہے کہ میرے موجود ہونے سے، میرے زندہ رہنے سے آپ فضول ہی کڑھتے ہو۔ اگر ہم نہیں رہے تو پھر آپ اکیلے بھی تو گھبرائیں گے۔

پانچواں شعر

کہیں ہم کو بھی، بھلا لوگوں میں
پھرتے چلتے نظر آئیے گا

شاعر محبوب سے کہتا ہے کہ آپ نے ہم کو نظر نہ آنے کی گویا قسم کھا رکھی ہے۔اوروں سے ملتے ہو۔کہیں انہیں بھلے لوگوں میں ہم کو بھی نظر آ جائیے۔

چھٹا شعر

درد! ہم اس کو تو سمجھائیں گے پر
اپنے تئیں آپ بھی سمجھائیے گا

اے درد ہم اس کو تو سمجھائیں گے کہ وہ آپ سے بے التفاتی نہ برتے مگر آپ خود کو بھی سمجھائیں کہ محبت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔اتنا بے تاب رہنا بھی اچھا نہیں۔