تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے

0

غزل

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کیا ہمیں کام ان گُلوں سے؟ اے صبا!
ایک دم آئے اِدھر، اُدھر چلے
شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے
ڈھونڈتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر ، باہر چلے
سا قیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ، ساغر چلے
درد! کچھ معلوم ہے؟ یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

تشریح

پہلا شعر

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے

شاعر کہتا ہے کہ ہم دنیا میں شائد تہمتیں اٹھانے آئے تھے۔ بدنامیاں مول لینے آئے تھے کہ چند تہمتیں اپنے ذمہ لگا کر اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔

دوسرا شعر

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

شاعر کہتا ہے کہ یہ زندگی کوئی زندگی ہے یہ تو قیامت ہے طوفان ہے اور ہم تو اس زندگی کے ہاتھوں مر چلے کوئی انسان کی موت کا سبب تو زندگی ہی ہے۔

چوتھا شعر

شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

شاعر کہتا ہے کہ شمع کی طرح چشم میں آنسو لیے ہم اس دنیا میں آئے تھے اور گناہوں سے دامن تر کر کے جا رہے ہیں۔کہ شمع بھی روتی ہوئی آتی ہے اور کتنے ہی پروانوں کی موت کا سبب بنتی ہے اور اپنا دامن گناہوں سے بھر کر بلآ خر بجھ جاتی ہے۔

پانچواں شعر

ڈھونڈتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر ، باہر چلے

شاعر نے تصّوف کا فلسفہ اس شعر میں بیان کر دیا کہ اس فلسفہ کے مطابق اپنے بطن کو صاف کرنے کی ضرورت ہے اور خُدا کا قیام اگر کہیں ہوتا ہے تو دل ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ شیخ صاحب خُدا کو دل کے بجائے اِدھر اُدھر تلاش کر رہے ہیں۔ مسجدوں میں ڈھونڈ رہے ہیں گویا گھرمیں ڈھونڈنے کے بجائے باہر ڈھونڈ رہے ہیں۔

ساتواں شعر

درد! کچھ معلوم ہے؟ یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

غزل کے مقطع میں شاعر خود سے سوال کرتا ہے کہ کچھ علم ہے کہ یہ سب لوگ کہاں سے دنیا میں آئے تھے اور اب دنیا سے کس طرف جا رہے ہیں۔ گویا پیدا ہوئے تو کہاں سے آئے اور مررہے ہیں تو کہاں جا رہے ہیں۔