ایک شام ماضی کی محرابوں میں

0
  • سبق : ایک شام ماضی کی محرابوں میں
  • مصنف : ابن انشاء
  • ماخوذ از : آوارہ گرد کی ڈائری

تعارفِ سبق

سبق ”ایک شام ماضی کی محرابوں میں“ کے مصنف کا نام ”ابن انشاء“ ہے۔ یہ سبق کتاب ” آوارہ گرد کی ڈائری“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

ابنِ انشاء اپنے دور کے مشہور و معروف کالم نگار و مزاح نگار تھے۔ آپ سفر نامے بھی لکھتے تھے اور آپ کے سفر نامے آپ کے نثری اسلوب کے آئینہ دار ہیں۔ آپ کی تحریریں سادہ ، پُرمزاح اور رواں ہوتی ہیں۔ ان کے سفر نامے کے مطالعہ کرتے وقت قاری کو محسوس ہوتا ہے گویا کہ اس نے تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں۔ ان کے سفر نامے پڑھتے وقت قاری کو اجنبیت یا بوریت کا احساس نہیں ہوتا ہے۔

سبق کا خلاصہ

اس سفر نامے میں مصنف کئی تاریخی جگہوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت یحٰیی علیہ السلام کا مزار ملک شام کے شہر دمشق کی ایک مسجد میں واقع ہے۔ لوگ وہاں اکثر اعتکاف کرنے آتے ہیں۔ جامع مسجد و مشق کے مشرقی منارے کے متعلق یہ روایت ہے کے حضرت عیسی کا دنیا میں دوبارہ نزول یہیں ہوگا۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی تربت کو دیکھ کر ابن انشاء کو فلسطینوں کے برے حالات یاد آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ فلسطین آج غاضبوں کے قبضے میں ہے اور اس کی آزادی کے لیے مسلمانوں کو سلطان صلاح الدین ایوبی کی سخت ضرورت ہے۔

مصنف بتاتے ہیں کہ سوق حمیدیہ دمشق کا بہت بڑا بازار ہے، ابن انشا کہتے ہیں کہ سوق حمیدیہ کی چھت کو لوہے کی چادر سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ یہاں سے منسلک ایک گلی میں محرابوں کا ایک سلسلہ ہے۔ داہنی طرف ایک مدرسہ ناصریہ کا دروازہ بھی ہے۔ جس کی بنیاد سلطان صلاح الدین ایوبی نے رکھی تھی۔ دمشق کی پرانی محرابوں کو دیکھ کر ابن انشاء صاحب ہلاکو خان اور تیموریہ دور کی وہ جنگیں یاد آئیں، جن کی وجہ سے دمشق میں بہت تباہی ہوئی تھی۔

مصنف پھر سلطان صلاح الدین کی بہادری کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہم ان کی قبر کے پاس بیٹھے تھے تب ہمیں فلسطین کی حالت یاد آئی اور ہم آبدیدہ ہوگئے۔ ہم سے رہا نہ گیا اور ہم نے سلطان صاحب لو مخاطب کر کےکہا کہ فلسطین کے لوگوں کو اپنے وطن سے دربدر کردیا گیا ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں کو آزادی کے لیے آپ کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں ہمارے لیے تو فلسطین کی حالت قیامت کا منظر پیش کرتی ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ اب فلسطینیوں کی مدد کرنے کے لیے سلطان صلاح الدین کو ہی واپس آنا پڑے گا۔

مصنف اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان تو ہوس کا مارا ہے۔ اسے جتنا بھی مل جائے اسے مزید کی خواہش ہوتی ہے لیکن ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے دل میں کوئی ہوس اور لالچ نہیں، اللہ نے ہمیں بہت کچھ عنایت کر رکھا ہے اور ہم اسی میں خوش ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں صاحبِ حیثیت رکھا ہوا ہے۔

اس سبق کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔

سوال : ذیل کی عبارتوں کی وضاحت کیجیے۔

(1) یہ فاتح لمبی تانے سو رہا تھا۔ ہم نے کہا اے غازی! اٹھ کہ تو اب نہیں اٹھے گا تو کب اٹھے گا۔ کیا خوب، قیامت کا بھی ہو گا کوئی دن اور؟

حوالہ سبق : یہ اقتباس ہماری گیارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ” ایک شام ماضی کی محرابوں میں“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”ابن انشاء“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”آوارہ گرد کی ڈائری“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تشریح

اس عبارت میں مصنف دراصل سلطان صلاح الدین کی بہادری کی جانب اشارہ کررہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جب ہم ان کی قبر کے پاس بیٹھے تھے تب ہمیں فلسطین کی حالت یاد آئی اور ہم آبدیدہ ہوگئے۔ ہم سے رہا نہ گیا اور ہم نے سلطان صاحب لو مخاطب کر کےکہا کہ فلسطین کے لوگوں کو اپنے وطن سے دربدر کردیا گیا ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں کو آزادی کے لیے آپ کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں ہمارے لیے تو فلسطین کی حالت قیامت کا منظر پیش کرتی ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ اب فلسطینیوں کی مدد کرنے کے لیے سلطان صلاح الدین کو ہی واپس آنا پڑے گا۔

(ب) ہم نے بھی شکر ادا کیا کہ ہوس کی تو کوئی انتہا نہیں۔ قسام ازل نے ہمیں پہلے ہی ہمارے حصے سے زیادہ دے رکھا ہے۔

حوالہ سبق : یہ اقتباس ہماری گیارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ” ایک شام ماضی کی محرابوں میں“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”ابن انشاء“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”آوارہ گرد کی ڈائری“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تشریح

اس عبارت میں انشاء جی کہتے ہیں کہ انسان تو ہوس کا مارا ہے۔ اسے جتنا بھی مل جائے اسے مزید کی خواہش ہوتی ہے لیکن ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے دل میں کوئی ہوس اور لالچ نہیں، اللہ نے ہمیں بہت کچھ عنایت کر رکھا ہے اور ہم اسی میں خوش ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں صاحبِ حیثیت رکھا ہوا ہے۔

سوال : آپ نے اپنی زندگی میں جو بھی سفر کیا ہو اس کی روداد قلم بند کیجیے۔

جواب : ہم ایک مرتبہ پاکستان کے کچھ علاقے گھومنے گئے تھے۔ ہم تمام لوگ صبح سویرے کراچی کے ریلوے اسٹین پر پہنچے اور لاہور جانے والی ریل گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ہم سب ریل گاڑی میں بھی بہت لطف اندوز ہوئے اور ہر اسٹیشن پر جب بھی ریل گاڑی رکتی ہم لوگ بھی نیچے اتر کر تھوڑا گھوم پھر لیتے۔ تقریباً چوبیس گھنٹے کے سفر کے بعد ہم لاہور اسٹیشن پر اترے اور ایک گاڑی میں بیٹھ کر ، لاہور کی تپتی دھوپ میں ہوٹل تلاش کرنا شروع کردیا۔ کئی جگہوں پر رکنے کے بعد آخر کار ہم نے ایک ہوٹل میں ٹہرنے کا فیصلہ کیا اور اپنا سامان گاڑی سے نکال کر اپنے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے۔ یہ ہوٹل دراصل داتا دربار سے ایک گلی پیچھے ہی تھا تو ہم اسی روز داتا دربار پر چلے گئے۔ اگلے دن ہم لاہور کے مشہور چڑیا گھر گھومنے گئے۔ پھر ہم نے مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد بھی دیکھی اور پھر وہاں سے ہم لوگ راولپنڈی کے لیے نکل گئے۔ راولپنڈی پہنچ کر وہاں کی شدید گرمی کی باعث ہم وہاں سے ایک ہی دن بعد مری کے لیے نکل گئے۔ مری میں ہم نے کافی دن قیام کیا اور وہاں موجود قدرت کے حسین نظارے دیکھے۔ وہاں سے ہم ناران کی جانب گئے اور سیف الملوک جھیل دیکھی۔ پھر وہاں سے دوبارہ مری آکر کچھ دن وہاں رکے اور ایک ماہ بعد ہم دوبارہ کراچی آگئے۔