برباد اور دانشمند

0
  • سبق : برد بار اور دانش مند
  • مصنف : شفیق الرحمن

تعارفِ سبق

سبق ”برد بار اور دانش مند“ کے مصنف کا نام ”شفیق الرحمن“ ہے۔

تعارفِ مصنف

شفیق الرحمن 9 نومبر 1920 کو کلانور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایم بی بی ایس (پنجاب) ڈی پی ایچ (برطانیہ) ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ (لندن) فیلو آف فریشنز اینڈ سرجنز (پاکستان) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1942ء میں جامعہ پنجاب کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا۔ انھوں نے مزاحیہ رومانوی افسانے مضمون لکھے۔
شفیق الرحمن نے فوجی ملازمت بھی کی۔
شفیق الرحمن 19 مارچ 2000 کو راہی ملک عدم ہوگئے۔

سبق کا خلاصہ

اس سبق میں مضمون نگار الو کو برد بار اور دانش مند کہتے ہیں۔ مضمون نگار نے الو کو برد بار اور دانشمند اس لیے بتایا ہے کیونکہ الو کی چند خصلتیں دانشمندوں جیسی ہیں۔ الو زیادہ تر خاموش رہتا ہے ، وہ کسی سے بات کرنا اور زیادہ ملنا جلنا پسند نہیں کرتا اور اسی وجہ سے وہ ویرانوں میں رہتا ہے۔ ان سب وجوہات کی بنا پر مضمون نگار نے الو کو بردبار اور دانشمند کہا ہے۔

وہ کھنڈروں میں رہتا ہے لیکن کھنڈر بننے کی وجوہات اور ہوتی ہیں۔ مصنف نے اس سبق میں ہم انسانوں پر طنز کیا ہے کہ بلاشبہ الو کھنڈروں میں رہائش اخیتار کرتا ہے مگر ان آباد بستیوں کو ویرانوں میں بدلنے والے ہم انسان ہیں۔ ہمارا لالچ ، ہوس اور طاقت کا نشہ شہروں کو بھی کھنڈورں میں تبدیل کردیتا ہے۔

مضمون نگار کہتے ہیں بعض لوگ کبھی نہیں مسکراتے اور اس سے وہ دوسروں پر اپنی بارعب شخصیت کا اثر ڈالتے ہیں اور اپنی خاموشی سے وہ سنجیدہ ، بردبار اور دانشمند نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔

الو کو نحوست کی علامت سمجھنا بلکل غلط ہے۔ الو بھی اللہ کی پیدا کردہ مخلوقات میں سے ایک ہے۔ اور ان کی تخلیق کا مقصد نخوست پھیلانا نہیں ہے۔ الو کو منحوس کہنا توہم پرستی ہے اور ہمارے مذہب اسلام میں اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
مصنف نے سبق میں الو کے حوالے سے انسانی معاشرے کی بے شمار برائیوں پر طنز کیا ہے۔ انسان ایک اللہ کی مخلوق ہونے کے باوجود ایک دوسرے میں فرق کرتے ہیں۔ مصنف عورت پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ چھوٹے بچے کا خیال رکھتی ہے مگر اس کے بڑے ہونے کے بعد اس کی تربیت نہیں کرتی۔ مصنف کہتے ہیں آج کل انسانوں کا کام ایک دوسرے کو ڈرانا اور اپنا کام نکلوانا رہ گیا ہے۔

سوالوں کے جوابات

سوال ۱ : مضمون نگار نے الو کو برد بار اور دانشمند کیوں کہا ہے؟

جواب : مضمون نگار نے الو کو برد بار اور دانشمند بتایا ہے کیونکہ الو کی چند خصلتیں دانشمندوں جیسی ہیں۔ الو زیادہ تر خاموش رہتا ہے ، وہ کسی سے بات کرنا اور زیادہ ملنا جلنا پسند نہیں کرتا اور اسی وجہ سے وہ ویرانوں میں رہتا ہے۔ ان سب وجوہات کی بنا پر مضمون نگار نے الو کو بردبار اور دانشمند کہا ہے۔

سوال ۲ : “وہ کھنڈروں میں رہتا ہے لیکن کھنڈر بننے کی وجوہات اور ہوتی ہیں” اس فقرے میں ہم انسانوں پر کیا طنز کیا گیا ہے؟

جواب : ”وہ کھنڈروں میں رہتا ہے لیکن کھنڈر بننے کی وجوہات اور ہوتی ہیں۔“ اس فقرے میں مصنف نے ہم انسانوں پر طنز کیا ہے کہ بلاشبہ الو کھنڈروں میں رہائش اخیتار کرتا ہے مگر ان آباد بستیوں کو ویرانوں میں بدلنے والے ہم انسان ہیں۔ ہمارا لالچ ، ہوس اور طاقت کا نشہ شہروں کو بھی کھنڈورں میں تبدیل کردیتا ہے۔

سوال ۳ : ”بعض لوگ کبھی نہیں مسکراتے“ اس سے وہ دوسروں پر کیا رعب ڈالنا چاہتے ہیں؟

جواب : بعض لوگ کبھی نہیں مسکراتے اور اس سے وہ دوسروں پر اپنی بارعب شخصیت کا اثر ڈالتے ہیں اور اپنی خاموشی سے وہ سنجیدہ ، بردبار اور دانشمند نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سوال ۴ : الو کو نحوست کی نشانی سمجھنا کہاں تک درست ہے؟

جواب : الو کو نحوست کی علامت سمجھنا بلکل غلط ہے۔ الو بھی اللہ کی پیدا کردہ مخلوقات میں سے ایک ہے۔ اور ان کی تخلیق کا مقصد نخوست پھیلانا نہیں ہے۔ الو کو منحوس کہنا توہم پرستی ہے اور ہمارے مذہب اسلام میں اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔

سوال ۵ : سبق کو غور سے پڑھیے اور بتائیے کہ مصنف نے الو کے حوالے سے انسانی معاشرے کی کن برائیوں پر طنز کیا ہے؟

جواب : مصنف نے سبق میں الو کے حوالے سے انسانی معاشرے کی بے شمار برائیوں پر طنز کیا ہے۔ انسان ایک اللہ کی مخلوق ہونے کے باوجود ایک دوسرے میں فرق کرتے ہیں۔ مصنف عورت پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ چھوٹے بچے کا خیال رکھتی ہے مگر اس کے بڑے ہونے کے بعد اس کی تربیت نہیں کرتی۔ مصنف کہتے ہیں آج کل انسانوں کا کام ایک دوسرے کو ڈرانا اور اپنا کام نکلوانا رہ گیا ہے۔