بہزاد لکھنوی کی نعت کی تشریح، سوالات و جوابات

0
  • پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ “اردو” برائے “آٹھویں جماعت”
  • سبق نمبر: 02
  • نظم کا نام: نعت
  • شاعر کا نام: بہزاد لکھنوی

اشعار کی تشریح:

ہر درد کا ہوتا ہے درمان مدینے میں
خالق کا بھی ہوتا ہے عرفان مدینے میں

یہ شعر “بہزاد لکھنوی” کی “نعتِ رسول مقبول صلی وعلیہ وسلم” سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر وجہ کائنات حضرت محمد صلی وعلیہ وسلم سے عقیدت کس اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ صلی وعلیہ وسلم کے در پر یعنی مدینے میں چلے جائیں تو وہاں ہر تکلیف کا علاج ممکن ہے۔مدینہ منورہ کی گلیاں ہی وہ جگہ ہے کہ جہاں ہمیں اپنے خالق یعنی اللہ تعالیٰ کا عرفان بھی حاصل ہوتا ہے۔

خاک در اقدس پر رکھتی ہے جبیں دنیا
اس طرح نکلتے ہیں ارمان مدینے میں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ حضور پاک صلی وعلیہ وسلم کے روضہ مبارک کی خاک پہ دنیا اپنا چہرہ رکھتی ہے۔ مدینے کی فضا عشقِ رسول صلی وعلیہ وسلم سے اس قدر معمور ہے کہ وہاں جا کر لوگ عقیدت میں وہاں کی خاک کو بھی چومتے نہیں تھکتے ہیں اور ہر طرح سے اپنے ارمان نکالتے ہیں۔

ایماں کی فضائیں ہیں ایماں کی ہوائیں ہیں
ہوتا ہے غرض کامل ایمان مدینے میں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مدینے کی گلیوں میں ایمان کی فضا اور ایمان کی ہوا ہے۔ مدینے کی گلیوں میں جا کر مکمل طور پر انسان کا ایمان کامل ہوتا ہے۔

وحدت کی وہاں تابش رحمت کی وہاں بارش
بخشش کا ہماری ہے سامان مدینے میں

اس شعر میں شاعر رسول صلی وعلیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مدینے کی گلیوں میں وہاں کی فضاؤں میں رحمت کی بارشیں برستی ہیں۔ وہاں کی فضا میں بخشش کا کامل سامان موجود ہے۔

یہ میرا عقیدہ ہے یہ دل کا عقیدہ ہے
ہوتی ہے ہر اک مشکل آسان مدینے میں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ حقیقت ہے کہ محض میرا عقیدہ ہے۔ لیکن اگر یہ میرا عقیدہ بھی ہے تو دل سے عقیدہ ہے کہ مدینے کی گلیوں میں جا کر انسان کی ہر ایک مشکل و پریشانی مکمل طور پر دور ہو جاتی ہے۔

پھر جاتے ہیں دن اس کے مل جاتی ہے جاں اس کو
جاتا ہے اگر کوئی بے جان مدینے میں

اس شعر میں شاعر حضرت محمد صلی وعلیہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بے جان حالت میں بھی مدینے میں حاضی دیتا ہے تو وہاں کی رحمتوں سے وہ دامن بھر کر لوٹتا ہے اور اس کو گویا جان مل جاتی ہے۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب دیں۔

خالق کا بھی ہوتا ہے عرفان مدینے میں ” سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

خالق کا بھی ہوتا ہے عرفان مدینے میں ” سے شاعر کی مراد ہے کہ مدینہ منورہ میں رسول صلی وعلیہ کے روضے پر ہم اپنے خالق کو پہچانتے ہیں۔

مدینے والے سے ایمان کیسے کامل ہو جاتا ہے؟

مدینے کی گلیوں کی فضا اور ہواؤں میں ایمان کی آمیزش ہے کہ وہاں جا کر انسان کا ایمان مکمل ہو جاتا ہے۔

ہم اپنے ارمان کیسے پورے کر سکتے ہیں؟

ہم اپنے ارمان خاک اقدس پر اپنی پیشانی رکھ کر پورے کر سکتے ہیں۔

شاعر کے مطابق ہماری بخشش کیسے ہوسکتی ہے؟

شاعر کے مطابق مدینے میں حضور اقدس صلی وعلیہ وسلم کے در پہ حاضری دے کر ہم اپنی بخشش کروا سکتے ہیں۔

دن پھر نا“ ایک محاورہ ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟

دن پھرنا سے مراد ہے ا چھے دنوں کا آنا ہے۔

مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں۔

(الف) درد کے درمان اور خالق کے عرفان کا مدینہ کی تعلق ہے؟ وضاحت کریں۔

درد کا درمان وہ در ہے کہ جس پہ حاضری سے ہمیں اپنے دردوں کا علاج ملے گا وہ در کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی کا روضہ مبارک ہے۔ وہاں جا کر وہاں کی عقیدت پا کر ہم اپنے رب کی ذات کو پا لیتے ہیں کہ حضور پاک صلی وعلیہ وسلم کی ذات مبارک ہی اللہ کی محبوب ذات ہے۔ ہمارے دین کی تکمیل بھی اس وقت تک ممکن نہیں کہ جب تک ہم لا الہ اللہ ہو کے ساتھ محمد رسول اللہ کا اضافہ نہ کر لیں۔

(ب) اس نعت مبارکہ سے آپ نے کیا سیکھا تحریر کیجئے۔

اس نعت سے رسول اقدس صلی وعلیہ وسلم کی ذات سے محبت کا گہرا اظہار ملتا ہے۔حضور صلی وعلیہ وسلم کے روضہ اقدس پہ حاضری دے کر ہم اپنی روح کو نا صرف سکون دے سکتے ہیں بلکہ یہی وہ در ہے کہ جہاں ہمیں اپنی تمام تکالیف کا علاج بھی ملے گا۔ان گلیوں کی حاضری سے ہمارا دین مکمل ہو گا۔ کیونکہ یہ ہی وہ ذات اقدس ہے کہ جن کی شفاعت سے ہم جیسے گناہ گاروں کی بخشش ممکن ہے۔یہاں جا کر ہی ہماری ہر مشکل آسان ہوتی ہے۔

متن کے مطابق درست جواب پر ✔️ کا نشان لگائیں۔

  • (الف) ہر درد کا ہوتا ہے درمان :
  • مدینے میں ✔️ علاج میں جدہ میں تدبیر میں
  • (ب) خاک در اقدس پہ رکھتی ہے جبیں:
  • ہوا دنیا✔️ جنت زمین
  • (ج) وحدت کی وہاں تابش رحمت کی وہاں :
  • گھٹا موج بارش ✔️ ہوا
  • (د) یہ میرا عقیدہ ہے یہ دل کا
  • قرینہ ہے اصول ہے عقیدہ ہے✔️ قصیدہ ہے
  • (ہ) پھر جاتے ہیں دن اُس کے مل جاتی ہے:
  • جان اس کو✔️ زندگی اس کو خوشی اس کو دانائی اس کو
  • (و) ہوتی ہے ہر اک مشکل:
  • ختم مدینے میں آساں مدینے میں ✔️ دور مدینے میں سہل مدینے میں۔

نظم میں استعمال ہونے والے ہم قافیہ الفاظ بتائیے۔

درمان ، عرفان ، ارمان ، ایمان ، سامان ، آسان ، بے جان۔

درج ذیل الفاظ و تراکیب کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

الفاظ جملے
میٹھے لفظوں میں اس نے میٹھے لفظوں میں اپنے دوست کی بے عزتی کی۔
سیدھا رستا دکھانا یااللہ پاک ہمیں ہمیشہ سیدھا راستہ دکھانا (آمین)
دل دُکھانا کسی کا دل دکھانا بہت بری بات ہے۔
راہ حق سے بھٹکنا راہ حق سے بھٹکنا عذابِ الٰہی کو دعوت دیتا ہے۔
دُکھ اُٹھانا والدین کو اپنی جوان اولاد کی موت کا دکھ اٹھانا پڑا۔

درج ذیل حروف فجائیہ و استجابیہ کو جملوں میں واضح کریں۔

الفاظ جملے
سبحان الله سبحان اللہ! کتنا خوبصورت منظر ہے۔
او ہو اوہو! آپ کے نقصان کا سن کر دکھ ہوا۔
جزاک الله جزاک اللہ ! اللہ پاک آپ کو اس کا اجر دے۔
لاحول ولاقوۃ لاحول ولاقوۃ! یہ کیسی خطرناک آواز آ رہی ہے۔
مرحبا مرحبا! میں آپ صلی وعلیہ وسلم کی امتی ہوں۔
شاباش شاباش! تم نے امتحان میں اچھی کارکردگی دکھائی
آفرین آفرین! آپ نے بہت اچھا جواب دیا۔
الله الله اللہ اللہ! یہ کیسی نازیبا حرکت ہے۔

اس نعت کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

اس نعت میں رسول صلی وعلیہ وسلم سے عقیدت کا اظہار ہے کہ ان کا روضہ ہی ہماری تمام تکالیف کا علاج ہے۔ اور یہی ہمارا ایمان تکمیل پاتا ہے۔یہاں جا کر ہماری ہر مشکل آسان ہوتی ہے۔

درج ذیل شعر کی مع حوالہ تشریح کریں۔

یہ میرا عقیدہ ہے، یہ دل کا عقیدہ ہے
ہوتی ہے ہر اک مشکل آسان مدینے میں

یہ شعر “بہزاد لکھنوی” کی “نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ” سے لیا گیا ہے۔اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ حقیقت ہے کہ محض میرا عقیدہ ہے۔ لیکن اگر یہ میرا عقیدہ بھی ہے تو دل سے عقیدہ ہے کہ مدینے کی گلیوں میں جا کر انسان کی ہر ایک مشکل و پریشانی مکمل طور پر دور ہو جاتی ہے۔

علمی زبان و بیان اور اسلوب اختیار کرتے ہوئے حضوراکرم مالَمُ اللبِينَ صَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَنْ أَبِيهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ کی بچوں پر شفقت کے موضوع پر ایک جامع پیرا گراف تحریر کریں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامل ومکمل نظرآئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مربیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے تمام ہی معلّمین آپ کے خوشہ چین نظر آئیں، آپ علیہ الصلاة والسلام کی ازدواجی زندگی کا جائزہ لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے لیے بہترین شوہر ہیں، آپ کی مجاہدانہ وسپاہیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے بہادر آپ سے کوسوں دور ہوں گے، اسی طرح بچوں کے ساتھ آپ کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپ بہترین مربی بھی ہیں، نیز آپ سے زیادہ کوئی بچوں پر رحم کرنے والابھی نہ ہوگا، آپ نے بچوں کے ساتھ نرمی، محبت، عاطفت، ملاطفت کا درس نہ صرف اپنی تعلیمات ہی کے ذریعہ دیا؛ بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت پیش فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں(سنن ابی داوٴد: ۴۹۴۳ باب فی الرحمة)

اسی طرح آپ نے فرمایا: جو نرمی سے محروم ہے وہ تمام ہی خیر سے محروم ہے۔آپ نماز پڑھتے ہوئے سجدہ میں ہوتے اور حضراتِ حسنؓ و حسین ؓ آپ کی پیٹھ پر چڑھ جاتے تو آپ سجدہ طویل فرما دیتے۔ کبھی کبھی آپ سیدنا عباسؓ کے بیٹوں عبداللہ اور عبید اللہ کو صف میں کھڑا کرکے فرماتے کہ میری طرف دوڑ کر آؤ، جو پہلے آئیگا اسے یہ انعام ملے گا۔ بچے دوڑ کر آپکی گود میں گر پڑتے، آپ ان کا بوسہ لیتے(مسند احمد)ایکباررسول اللہ خطبہ دے رہے تھے کہ حضراتِ حسنؓ و حسینؓ چلتے چلتے گر پڑتے ہیں۔ رسول اللہ منبر سے اتر کر انہیں اٹھا کر اپنے سامنے بٹھاتے اور یوں ارشاد فرماتے ہیں:’’اللہ نے سچ کہا کہ بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد فتنہ (آزمائش کاباعث) ہیں،میں نے بچوں کو گرتا دیکھ کر صبر نہ کرسکا یہاں تک کہ اپنی بات روک کر انہیں اٹھالیا۔‘‘ (ترمذی/ ابن ماجہ)

بچوں کے ساتھ آپ کی شفقت اور محبت کا یہ معاملہ تھا کہ جب کبھی آپ سفر پر جاتے یا سفر سے واپس تشریف لاتے تو جو بچے بڑوں کے ساتھ آپ کو رخصت کرنے کیلئے یا آپ کے استقبال کیلئے مدینہ منورہ سے باہر تک جاتے تو آپ سواری پر اپنے آگے اور پیچھے بچوں کو بٹھالیتے۔ سیدنا عبداللہ بن جعفرؓ روایت کرتے ہیںکہ ایک مرتبہ آپ جب سفر سے واپس تشریف لائے تو مجھے آپ کی طرف بڑھایا گیا، آپنے مجھے اپنے آگے بٹھالیا۔ پھر حسن ؓ یا حسینؓ آئے، آپنے انہیں اپنے پیچھے بٹھالیا ۔ اس طرح ایک سواری پر ہم 3 لوگ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے(صحیح مسلم) ۔

نعت میں موجود ردیف اور قافیے پہچان کر انھیں کاپی میں درج کریں۔

قافیہ: درمان ، عرفان ، ارمان ، ایمان ، سامان ، آسان ، بے جان۔
ردیف: نعت کے پہلے شعر میں ردیف موجود ہے۔ میں ردیف ہے۔