ماہر القادری کی حمد کی تشریح، سوالات و جوابات

0
  • پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ “اردو” برائے “آٹھویں جماعت”
  • سبق نمبر: 01
  • نظم کا نام: حمد
  • شاعر کا نام: ماہر القادری

اشعار کی تشریح:

کس نے سورج چاند بنائے
اور تاروں کے دیپ جلائے

یہ اشعار نظم حمد سے لیے گئے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ کون ذات ہے جس نے سورج، چاند اور تارے بنائے ہیں وہ ذات کوئی اور نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسی ذات نے روشن تارے بنائے ہیں جو جگمگاتے ہیں۔

کیسے کیسے باغ سجائے
رنگ برنگے پھول کھلائے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے اللہ کی ذات کی قدرت ہے کہ اس نے کیسے خوبصورت اور رنگ برنگے باغات سجائگ ہیں اور ان باغوں کی خوبصورتی میں خوبصورت اور رنگ برنگے پھولوں سے اضافہ کیا ہے۔

کوئل کوکی بھونرا گونجا
بلبل نے بھی گیت سنائے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی طرح کے خوبصورت پرندے تخلیق کیے ہیں یہ اس کی قدرت کی ہی نشانی ہے کہ کہیں کوئل کی کوک سنائی دیتی ہے تو کہیں بھونرے کی آواز گونج رہی ہے۔ بلبل بھی اپنے سہانے گیت سناتی دکھائی دیتی ہے۔

کلیوں کے دامن بھرنے کو
اوس کے موتی برسائے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باغات میں جو خوبصورت کلیاں کھلائی ہیں ان کے حسن کو اور زیادہ بڑھانے کے لیے ان کے دامن کو اوس (شبنم) کے قطروں سے بھر دیا ہے۔ یہ اوس ان پر موتیوں کی طرح دکھائی دیتی ہے اور ان کے حسن کو بڑھاتی ہے۔

کھیتوں کو ہریالی دے دی
پربت پر بادل لہرائے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی قدرت کے کرشمے ہیں کہ اس نے کھیتوں ،درختوں وغیرہ جو ہریالی سے نوازا ہے اور پہاڑوں پر بادلوں کا لہرانا بھی اسی کی قدرت کا جلوہ ہے۔

دریا دریا موجیں اٹھیں
جنگل جنگل پیڑ اگائے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دریاؤں میں موجیں اٹھائی ہیں اور وہی ذات ہے کہ جس نے جنگلات میں کئی اقسام کے اور کئی طرح کے فوائد و خوبیوں سے مزین درخت اگائے ہیں۔

انگوروں کی بیل چڑھائی
سبزے کے قالین بچھائے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی قدرت ہی کہ کرشمے ہیں کہ ان درختوں پہ انگورجیسے لذیذ پھل کی بیلوں کو چڑھایا ہے اور ہر جانب سبزے کی ایسی بہتات کر دی ہے گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ سبزے کے قالین بجھا رکھے ہوں۔

تتلی کو رنگین بنا کر
اڑنے کے انداز سکھائے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی قدرت کا ایک اور کرشمہ یہ بھی ہے کہ اس نے کئی نوح کے جانور ،پرندے اور حشرات الارض تخلیق کیے ہیں انہی میں سے ایک تتلی بھی ہے جسے بہت سے رنگوں سے تخلیق کرنے کے بعد اسے پرواز کے کئی طرح کے ڈھنگ سکھائے ہیں۔

انسان کو دانائی دے کر
کیسے کیسے بھید بتائے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی ذات نے انسان کو بطور اشرف المخلوقات تخلیق کیا اور پھر اس پر اپنی عنایتوں کی بہتات کر دی جن میں سے ایک نعمت انسان کے لیے یہ ہے کہ اس نے انسان کو عقل سے نوازا ہے جس کی بدولت وہ قدرت کے کئی طرح کے رازوں کو بھانپنے کی کوشش کرتا ہے۔

میرے خدا نےسب کے
خدا نے یہ سب اسباب بنائے

اس شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ اللہ کی ہی مہربانی ہے کہ اس نے انسان کے لیے کئی طرح کے اسباب تخلیق کر دیے اور یہ سب کسی اور نے نہیں بلکہ میرے خدا یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کی بدولت ہے۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب دیں۔

جس نظم میں اللہ کی تعریف بیان کی جائے اُسے صنف سخن میں کیا کہتے ہیں؟

جس نظم میں اللہ کی تعریف بیان کی جائے اُسے صنف سخن کو حمد کہتے ہیں۔

اس نظم میں اللہ تعالی کی کون سی نعمتیں بیان کی گئی ہیں ؟ان نعمتوں کی فہرست مرتب کیجیے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جو نعمتیں تخلیق کی ہیں ان میں پھول ،پودے، جنگلات ، جانور، خوش الحان پرندے ، خوش رنگ تتلیاں ، اوس اور سب سے بڑھ کر انسان کے لیے عقل جیسی نعمتیں تخلیق کی ہیں۔

تتلی کواللہ تعالیٰ نے کیسا بنایا اور کیا سکھایا؟

تتلی کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے رنگوں سے تخلیق کرنے کے بعد اسے پرواز کے کئی طرح کے ڈھنگ سکھائے ہیں۔

کائنات کے راز منکشف کرنے کے لیے انسان کو کس نعمت سے نوازا گیا؟

کائنات کے راز منکشف کرنے کے لیےاللہ تعالیٰ نےانسان کو دانائی یعنی عقل کی نعمت سے نوازا ہے۔

مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں۔

حمد میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کن چیزوں کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں ؟وضاحت کریں۔

حمد میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی ہوئی ہر چیز کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں جیسے کہ تارے جو آسمان پر ٹمٹاتے ہیں وہ دیپ کی طرح روشن ہیں۔پرندوں کی گونج ، پھولوں کے رنگ ،کھیتوں کی ہریالی ،دریاؤں میں اٹھنے والی موجیں اور انسان کی عقل یہ سب اللہ کی تخلیق کی ہوئی چیزیں ہیں۔انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے لیے اللہ نے اسے عقل سے نوازا۔ اس دنیا کی خوبصورتی کے لیے طرح طرح کی چیزیں جیسے کوئل جیسے خوبصورت آواز والے پرندے اور دریا وغیرہ تخلیق کیے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کیوں بنایا ؟

اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کرنے کے ساتھ ہی اسے باقی مخلوق سے ممتاز قرار دیا اور جانوروں اور دیگر مخلوق سے اس کے امتیاز کی بڑی خوبی انسان کے پاس عقل و شعور کا ہونا ہے۔ جی ہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سے نوازا ہے جس کی بدولت وہ تمام مخلوق سے ممتاز ہے۔ عقل و شعور کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ انسان غلط اور صحیح اور اچھے برے میں با آسانی تمیز کر سکتا ہے۔ وہ علم حاصل کرتا ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ فرشتوں نے انسانوں کے جد امجد یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے سجدہ کیا۔

ہم اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانتے ہیں؟

اللہ تعالیٰ کی ذات کو کیسے پہچانا جائے اس حوالے سے اللَّه نے قرآن میں کہا ہے کہ
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (سورہ ق؛16)
ترجمہ : ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔
یعنی اللہ کی ذات کو پہچانا ہے تو انسان کو اپنی ذات جو پہچانا ہے اس دنیا کی ہر ایک نعمت میں اللہ کی ذات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔اس کائنات میں جو کچھ تخلیق کیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے ہیں اور ہر ایک چیز اس کی حمد و ثنا بیان کرتی ہے۔

پودے اور درخت ہمارے لیے کیوں ضروری ہیں؟

درخت اور پودے لگانا بہت زیادہ ضروری ہیں۔ پودے اور درخت نہ صرف ماحول کو خوبصورت بنا کر انسان کو طروات بخشتے ہیں بلکہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ممکنہ طور پر نقصان دہ گیسیں جیسے سلفر ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ کو جذب کر کے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ ایک بڑا درخت 4 افراد کے لیے ایک دن کی آکسیجن پیدا کرتا ہے۔ آب و ہوا کی بحالی،ہوا کے معیار میں بہتری، مٹی کا تحفظ اور جنگلی زندگی کی بقا کے لیے درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ درخت زمینی کٹاؤ کو روکتے ہیں اور بارش برسانے کا سبب بنتے ہیں۔ یہی نہیں ان سے ہمیں کئی طرح کی جڑی بوٹیاں حاصل ہوتی ہیں۔

متن کے مطابق دُرست جواب پر ✔️ کا نشان لگا ئیں۔

  • (الف) اور تاروں کے ۔دیپ جلائے۔
  • پنکھ دیپ✅ الاؤ چراغ
  • (ب) کوئل کو کی ، بھونرا گونجا۔
  • گایا چہکایا گونجا✅ کوکا
  • (ج) کلیوں کے دامن بھرنے کو۔
  • منھ غنچے دامن ✅ خوش بو
  • (د) بادل لہرائے پربت پر۔
  • پربت پر✅ پودوں پر جنگل پر سبزے پر
  • (ه) دریا دریا موجیں اٹھیں۔
  • لہریں ٹھاٹھیں موجیں✅ ہوائیں
  • (و) سبزے کے قالین بچھائے۔
  • باغ قالین✅ کھیت میدان
  • (ز) تتلی کو رنگین بنا کر۔
  • باغوں پھولوں تتلی✅ پودوں
  • (ح) کیسے کیسے بھید بتائے۔
  • اسرار راز کام بھید✅

محاورات کو پڑھ کر اُن کا مفہوم تحریر کریں اور جملے بنائیں۔

الفاظ مفہوم جملے
چار چاند لگانا بہت خوبصورت بنانا آمنہ کی انتھک محنت نے اس منصوبے کو چار چاند لگا دیے۔
اپنا راگ الاپنا اپنی بات کہنا احمد کی بری عادت ہے کہ وہ کسی کی بات سننے کی بجائے ہر وقت اپنا راگ الاپتا رہتا ہے۔
الٹی گنگا بہنا خلاف اصول کام کرنا یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس شعر میں الٹی گنگا بہتی ہے کہ کمزور طاقت ور پہ حاوی ہے۔
اپنے منھ میاں مٹھو بننا اپنی تعریف خود کرنا علینہ کو اپنے منھ میاں مٹھو بننے کی عادت ہے۔
تین حرف بھیجنا لعنت بھیجنا جھگڑے کے بعد وہ اپنے مخالفین پہ تین حرف بھیجتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

اپنے الفاظ میں حمد کا خلاصہ تحریر کریں۔

اس نظم حمد میں ماہر القادری نے اللہ کی عظمت کو بیان کیا ہے کہ اس نے انسان کو اس دنیا میں طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے سورج ، چاند اور تارے تخلیق کیے۔ رنگ برنگے پھولوں سے باغ سجائے خوبصورت آوزوں والے پرندے تخلیق کیے۔ کھیتوں کو ہریالی دی اور پھولوں کے دامن کو اوس سے بھرا۔دریا میں اٹھنے والی موجیں اور جنگلات سلکے درخت اسی کی قدرت کے کرشمے ہیں۔یہی نہیں سبزے کے قالین اور خوبصورت تتلیاں بھی اسی کی مہربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سے نوازا ہے جس کی بدولت وہ قدرت کے کئی طرح کے رازوں کو بھانپنے کی کوشش کرتا ہے۔شاعر اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ اللہ کی ہی مہربانی ہے کہ اس نے انسان کے لیے کئی طرح کے اسباب تخلیق کر دیے اور یہ سب کسی اور نے نہیں بلکہ میرے خدا یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کی بدولت ہے۔

درج ذیل اشعار کی تشریح مع حوالہ اشعار تحریر کریں۔

انسان کو دانائی دے کر
کیسے کیسے بھید بتائے
میرے خدا نےسب کے
خدا نے یہ سب اسباب بنائے

یہ اشعار “ماہر القادری” کی نظم “حمد” سے لیا گیا ہے۔اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی ذات نے انسان کو بطور اشرف المخلوقات تخلیق کیا اور پھر اس پر اپنی عنایتوں کی بہتات کر دی جن میں سے ایک نعمت انسان کے لیے یہ ہے کہ اس نے انسان کو عقل سے نوازا ہے جس کی بدولت وہ قدرت کے کئی طرح کے رازوں کو بھانپنے کی کوشش کرتا ہے۔شاعر اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ اللہ کی ہی مہربانی ہے کہ اس نے انسان کے لیے کئی طرح کے اسباب تخلیق کر دیے اور یہ سب کسی اور نے نہیں بلکہ میرے خدا یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کی بدولت ہے۔