سبق: خواتین کا احترام اور مقام، خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • پنجاب کریکولم اینڈ ٹکیسٹ بک بورڈ “اردو” برائے “آٹھویں جماعت”
  • سبق نمبر: 16
  • سبق کا نام: خواتین کا احترام اور مقام

خلاصہ سبق:

اللہ تعالیٰ انسان کو اشرف الخلوقات بنا کر زمین پر اتارا۔ مرد و خواتین کے الگ طرح کے حقوق و فرائض متعین کیے۔اگر ہم آغاز اسلام کے وقت سرزمین حجاز پر عربوں کی حالت زارکا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس دور جہالت میں عورتوں کے کوئی حقوق نہ تھے۔بیٹی کی پیدائش پر بجائے خوشی منانے کے سوگ کا سا سماں ہوتا تھا۔ بعض مقامات پرتو بیٹی کوزندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔

عورت کو کسی بھی حیثیت میں عزت کی زندگی نصیب نہ ہوتی تھی۔جہالت کے اس اندھیرے میں آپ ﷺ روشنی کی کرن بن کر آئے اور لقگوں کو عورتوں کے حقوق سے آگاہ کیا۔آپ خاتم النبین صلى اله عليه وعلی اله واصحابہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کو مثال بنا کر اہل عرب کی تربیت کی اللہ کے پیارے رسول خَاتَمُ النَّبِيِّنِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی پرورش جس پیار اور شفقت سے کی وہ مثالی ہے ۔ حضرت فاطمة الزہرا رضى الله عنہا جب تشریف لاتیں تو آپ عالم النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔

اسی طرح آپ خاتم النبیین صلى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے امہات المومنین رضی الله عنه کو جس عزت و تکریم سے نوازا اوہ بھی رہتی دنیا تک نمونہ ہے۔آپ خَاتَّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِيهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّم نے بیٹی کو خاندان کے لیے باعث رحمت قرار دیا اور اُسے روز قیامت اپنے والدین کے لیے باعث شفاعت قرار دیا۔ حدیث پاک ہے: ترجمہ: جس کسی کی لڑکی ہو پھر وہ اُسے زندہ درگور نہ کرے نہ اُس کی توہین کرے اور نہ لڑکے کو اُس پر ترجیح دے، اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل کرے گا۔ (سنن ابو داؤد )اسی طرح ایک اور حدیث میں حضور خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے دو انگلیاں جوڑ کر اشارہ فرمایا : ”جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی ، وہ اور میں ایک ساتھ ) ان دو انگلیوں کی طرح جنت میں داخل ہوں گے ۔“ (سنن ترمذی: ۱۹۱۴)

اسلام نے عورت کے ہر روپ خواہ وہ ماں ہو یا بیٹی اور بیوی اسے عزت وقار اور مرتبہ عطا کیا ہے اس کے علاوہ اللہ کی جانب سے مذہب اسلام میں ان کے لیے بنیادی حقوق بھی رکھ دیے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے مردوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی تمام ضروریات پوری کریں۔اس کے نان و نفقہ کا اپنی حیثیت کے مطابق انتظام کریں۔اس سے نرمی اور شفقت سے پیش آئیں۔اس کے علاوہ اسلام نے ماں کو جو مقام عطا کیا ہے سب ہی اس سے واقف ہیں۔ ماں کے قدموں تلے جنت کا ہونا، اس امر کا غماز ہے کہ ماں کو اللہ تعالی نے کس قدر بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے۔

مگر موجودہ دور میں جہاں کہیں تو عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں کوئی آج ڈاکٹر ، وکیک اور انجینئر تو کوئی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے۔ دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی ہے جہاں بعض اوقات باپ کی وراثت میں بیٹیوں کو حصہ نہیں دیا جاتا یا زبردستی اُن کو بیٹے کے حق میں دستبردار ہونے کو کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی اس وجہ سے نہیں کرتے کہ انھیں اپنی زمین میں سے حصہ نہ دینا پڑ جائے۔ ایسی روایات کو فوراً بدلنے اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے معاشرے میں آگاہی اور شعور پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب دیں

اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیا درجہ عطا کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ انسان کو اشرف الخلوقات بنا کر زمین پر اتارا۔

اسلام سے قبل عربوں کے کیا حالات تھے؟

اگر ہم آغاز اسلام کے وقت سرزمین حجاز پر عربوں کی حالت زارکا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس دور جہالت میں عورتوں کے کوئی حقوق نہ تھے۔بیٹی کی پیدائش پر بجائے خوشی منانے کے سوگ کا سا سماں ہوتا تھا۔ بعض مقامات پرتو بیٹی کوزندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ عورت کو کسی بھی حیثیت میں عزت کی زندگی نصیب نہ ہوتی تھی۔

قبل اسلام لڑکیوں یا بیٹیوں سے کیا سلوک کیا جا تا تھا؟

قبل اسلام لڑکیوں یا بیٹیوں کو کوئی حقوق نہ تھے۔بیٹی کی پیدائش پر بجائے خوشی منانے کے سوگ کا سا سماں ہوتا تھا۔ بعض مقامات پرتو بیٹی کوزندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔

بیٹی کے متعلق اسلام کے کیا احکامات ہیں؟

آپ خَاتَّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِيهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّم نے بیٹی کو خاندان کے لیے باعث رحمت قرار دیا اور اُسے روز قیامت اپنے والدین کے لیے باعث شفاعت قرار دیا۔ اسلام نے یہ بھی حکم دیاہے کہ بیٹے اور بیٹی میں کوئی فرق روا نہ رکھا جائے۔

نبی اکرم خاتم النبيِّنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى لِيهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ فاطمہ رَضِيَ اللهُ عَنهَا کو کس طرح عزت سے نوازتے ؟

آپ خاتم النبین صلى اله عليه وعلی اله واصحابہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کو مثال بنا کر اہل عرب کی تربیت کی اللہ کے پیارے رسول خَاتَمُ النَّبِيِّنِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی پرورش جس پیار اور شفقت سے کی وہ مثالی ہے ۔ حضرت فاطمة الزہرا رضى الله عنہا جب تشریف لاتیں تو آپ عالم النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے ۔ اسی طرح آپ خاتم النبیین صلى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے امہات المومنین رضی الله عنه کو جس عزت و تکریم سے نوازا اوہ بھی رہتی دنیا تک نمونہ ہے۔

بیٹی کے والدین کو اسلام نے کیا خوش خبری سنائی ہے؟

بیٹی کے والدین کو اسلام یہ خوشخبری سناتا ہے کہ جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اور کوئی فرق روا نہ رکھا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ وہ اپنے نبی صلی وعلیہ وسلم کے ساتھ ایسے جنت میں جائے گا جیسے دو جڑی کوئی انگلیاں ہوتی ہیں۔

اسلام نے مردوں کو بیویوں کے معاملے میں کیا حکم دیا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے مردوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی تمام ضروریات پوری کریں۔اس کے نان و نفقہ کا اپنی حیثیت کے مطابق انتظام کریں۔اس سے نرمی اور شفقت سے پیش آئیں۔

مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں۔

(الف) احادیث کی مدد سے بتائیے کہ اسلام نے بیٹی اور ماں کو کیا مقام عطا کیا ہے؟

اسلام نے عورت کے ہر روپ خواہ وہ ماں ہو یا بیٹی اور بیوی اسے عزت وقار اور مرتبہ عطا کیا ہے اس کے علاوہ اللہ کی جانب سے مذہب اسلام میں ان کے لیے بنیادی حقوق بھی رکھ دیے ہیں اسلام بیٹی کو جو مرتبہ عطا کرتا ہے اس کی تائید ان باتوں سے ہوتی ہے کہ آپ خَاتَّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِيهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّم نے بیٹی کو خاندان کے لیے باعث رحمت قرار دیا اور اُسے روز قیامت اپنے والدین کے لیے باعث شفاعت قرار دیا۔ حدیث پاک ہے: ترجمہ: جس کسی کی لڑکی ہو پھر وہ اُسے زندہ درگور نہ کرے نہ اُس کی توہین کرے اور نہ لڑکے کو اُس پر ترجیح دے، اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل کرے گا۔ (سنن ابو داؤد )
اسی طرح ایک اور حدیث میں حضور خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ نے دو انگلیاں جوڑ کر اشارہ فرمایا : ”جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی ، وہ اور میں ایک ساتھ ) ان دو انگلیوں کی طرح جنت میں داخل ہوں گے ۔“ (سنن ترمذی: ۱۹۱۴)
اس کے علاوہ اسلام نے ماں کو جو مقام عطا کیا ہے سب ہی اس سے واقف ہیں۔ ماں کے قدموں تلے جنت کا ہونا، اس امر کا غماز ہے کہ ماں کو اللہ تعالی نے کس قدر بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے۔

(ب) پاکستان میں عورتوں کے ساتھ کیا امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے؟

پاکستان میں خواتین کو طبقاتی معاشرے کے نتیجے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کو درپیش کچھ پریشانیوں میں گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، عصمت دری اور اغوا، ازدواجی عصمت دری، جبری شادی وغیرہ شامل ہیں۔ بعض اوقات باپ کی وراثت میں بیٹیوں کو حصہ نہیں دیا جاتا یا زبردستی اُن کو بیٹے کے حق میں دستبردار ہونے کو کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی اس وجہ سے نہیں کرتے کہ انھیں اپنی زمین میں سے حصہ نہ دینا پڑ جائے۔ ایسی روایات کو فوراً بدلنے اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے معاشرے میں آگاہی اور شعور پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔

متن کے مطابق دُرست جواب پر ✔️ کا نشان لگائیں۔

  • (الف) اللہ تعالیٰ نے مردوں اور خواتین کے الگ الگ متعین کیے:
  • فرض کھانے گھر حقوق وفرائض✔️
  • (ب) خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبہ زندگی میں جھنڈے گاڑ رہی ہیں:
  • اپنی شوکت کے اپنی عظمت کے اپنی قابلیت کے ✔️ اپنی شاعری کے
  • (ج) آپ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَأَصْحَابِہ وَسَلَّم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پرورش جس پیارا اور شفقت سے کی ، وہ تھا:
  • مثالی✔️ عمدہ اعلیٰ افضل
  • (د) آپ خاتم النَّبِيْنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَ أَصْحَابِہ وَسَلَّمَ نے امہات المومنين رضى الله علمون کو جس عزت و تکریم سے نوازا وہ:
  • ناقابلِ بیاں ہے عمومی ہے نمونہ ہے✔️ عجیب ہے
  • (ہ)آپ خاتم النَّبِيْنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِهِ وَ أَصْحَابِہ وَسَلَّمَ نے بیٹی کو خاندان کے لیے قرار دیا:
  • باعثِ رحمت ✔️ باعثِ برکت باعثِ تشویش باعثِ اطمینان
  • (و)آپ خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى اليه واصحابہ وسلم نے بیٹی کو روزِ قیامت اپنے والدین کے لیے قرار دیا:
  • باعثِ شفاعت✔️ باعثِ برکت باعثِ رحمت باعثِ اطمینان

سبق کے مطابق خالی جگہ پر کریں۔

  • اسلام سے قبل عورتوں کے کوئی حقوق نہ تھے۔
  • بیٹی کی پیدائش پر بجائے خوشی منانے کے سوگ کا سا سماں ہوتا تھا۔
  • رسول پاک خَاتَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَ أَصْحَابِہ وَسَلَّمَ نے عربوں کو عورتوں کے مقام و مرتبے سے آگاہ کیا.
  • رسول پاک خَاتَمُ النَّبِيْنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى أَلِيهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آمد پر کھڑے ہو جاتے ۔
  • اسلام نے بیٹی کو خاندان کے لیے باعث رحمت قرار دیا۔
  • بیٹی روز قیامت، والدین کے لیے باعثِ شفاعت ہے۔
  • ماؤں کے قدموں تلے جنت ہے۔
  • آج کل خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں ۔

دیے گئے الفاظ کے جملے بنا ئیں۔

الفاظ جملے
سر زمین سعودی عرب مسلمانوں کی سرزمینِ مقدس ہے۔
دورِ جہالت دورِ جہالت میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔
سوگ اسلام میں تین دن سے زائد سوگ منانا ممنوع ہے۔
منور آپ صلی وعلیہ وسلم نے اہل عرب کو ہدایت کے نور سے منور فرمایا۔
وراثت اسلام وراثت میں بیٹی کو حق دیتا ہے۔

دی گئی مثال کے مطابق درست مترادف کالم ‘ میں لکھیں۔

کالم الف کالم ب
گاؤں دیہ
غریب مفلس
قرض ادھار
دانا عقل مند
رحم دل مہربان
مصیبت تکلیف
حق دار مستحق
بوڑھا ضعیف

دی گئی مثال کی روشنی میں تلازمات لکھیں۔

باغ: پودے، پرندے، تلیاں، درخت، پھول، انسان
بس سٹاپ گاڑی ، سواریاں ، ڈرائیور ، کنڈکٹر ، ٹکٹ ، ہجوم
ہسپتال ڈاکٹر ، مریض، دوا ، علاج ، انجیکشن ، سرنج ، ایمبولینس
سکول پرنسپل ، استاد ، طالب علم ، کتب ، تختہ سیاہ ، کرسیاں ، پڑھائی
ائیرپورٹ جہاز ، پاسپورٹ ، ٹکٹ ، مسافر ، پائلٹ
بازار دکانیں ، رش ، کپڑے ، جوتے ، سودا سلف ، سبزیاں پھل ، گاہک
سٹیڈیم کھیل ، ہجوم ، روشنیاں ، کھلاڑی ، کرسیاں ، گیند
مسجد اذان ، نماز ، نمازی ، امام ، جائے نماز ، سکون

مذکر اور مؤنث الفاظ کو الگ الگ متعلقہ خانوں میں درج کریں۔

خواتین ۔ قابل ۔ حکومت ۔ حقوق ۔ فرائض ۔ تصویر ۔ علاقہ کوشش ۔ قیامت۔ قانون ۔ خاندان ۔ مقام

مذکر: قابل ، حقوق ، فرائض ، علاقہ ، قانون ، خاندان ، مقام۔
مونث: خواتین ، حکومت ، تصویر ، کوشش ، قیامت۔

درست اعراب کی مدد سے تلفظ واضح کریں۔

فلاحی ۔ قوانین۔ سرخرو۔ مناظر – حقوق – درگور متعین ۔ سماں۔ شفاعت ۔شفقت۔ تعلیمات۔ صلاحیت
فَلاحی ، قَوانِین ، سُرخرُو ، مَناظر ، حُقُوق ، دَرگور ، مُتَعَیَین، سَماں ، شَفاعَت ، شَفقَت ، تَعلِیمات ، صَلاحیَت ۔

ذیل میں فعل مجہول کے جملے دیے گئے ہیں۔ انھیں فعل معروف میں تبدیل کیجیے۔

پھل خریدے گئے۔ آم ، آڑرو خریدے گئے۔
گھر بنایا گیا۔ علی کا گھر بنایا گیا۔
میچ کھیلا جائے گا۔ آج کرکٹ کا میچ کھیلا جائے گا۔
برتن دھوئے گئے۔ کھانے کے برتن دھوئے گئے۔
گیند خریدی گئی۔ کرکٹ کی گیند خریدی گئی۔
کام کیا گیا۔ کتاب پر کام کیا گیا۔
  • تخلیقی لکھائی:

مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض پر مفصل مضمون تحریر کیجیے۔

اسلام اور اس معاشرے میں مرد و خواتین دونوں کے لیے کچھ حقوق اور کچھ ان کے فرائض کا تعین کیا گیا ہے جس سے ایک متوازن معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اسلام دین فطرت اور دین انسانیت ہے ،اس نے مسلمانوں کو ایسا نظام معاشرت عطا فرمایا ہے کہ جس میں انسانی زندگی اور ہر طبقے کے افراد کے حقوق و فرائض متعین کردیے گئے ہیں۔بالخصوص میاں بیوی اور زوجین کے حقوق و فرائض کے حوالے سے اسلامی تعلیمات بہت واضح ہیں۔

اسلام میں حقوق و فرائض کے حوالے سے مرد وعورت کے باہمی تعلق اور اس رشتے کی بنیاد انتہائی پائیدار ہے۔اس کے لیے مرد و عورت دونوں پر ذمے داریاں اور ایک دوسرے پر دونوں کے حقوق وفرائض متعین کئے گئے ہیں ،جن سے خاندان کی بنیاد مضبوط ہوتی اور معاشرے میں امن وسکون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔سورۂ نساءمیں حکم دیا گیا : ’’اور ان کے ساتھ اچھی طرح گزر بسر کرو‘‘۔ عورتوں کے ذمے احکام بیان کرنے کے بعد قرآن مجید دوبارہ شوہروں کو بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے کہ تمہارے اوپر عورتوں کے جو حقوق ہیں، انہیں اچھی طرح ادا کرو، اور خود کو بالادست و بااختیار سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ دستور شرعی کے خلاف بدسلوکی نہ کرو‘‘۔’یعنی ان کے بارے میں اچھی بات کرو، اپنے افعال اور اپنی ہیئت (کردار اور رویے) کو اچھا کرو، جیسا کہ تم ان سے اپنے لیے چاہتے ہو، ویسے ہی تم ان کے ساتھ (رویہ اور حسن سلوک کا معاملہ اختیار )کرو‘‘۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں سے حسنِ معاشرت یعنی معروف طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حکم دیا ہے اور ’’معروف‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کا حق پورا پورا ادا کیا جائے، مثلاً مہر، نفقہ اور باری، اگر کئی بیویاں ہوں تو ان کے درمیان باری مقرر کرنا، اسی طرح بدگوئی ترک کرکے اس کی اذیت کو ختم کرنا، اسی طرح اس کی طرف سے بے اعتنائی اور دوسروں کی طرف میلان کو ترک کرنا وغیرہ، اسی طرح ناک بھوئیں چڑھانا اور ترش روئی سے اس کے سامنے پیش آنا، جب کہ اس کا کوئی قصور بھی نہ ہو اور اسی طرح کی دوسری باتیں جو ان صورتوں میں آتی ہوں‘‘۔

پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، یہ امر نفس انسانی کے لیے بہترین اورخوش گوار زندگی کی ضمانت ہے‘‘۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو‘‘۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کے لیے بہتر ہو اور خود مَیں اپنے اہل و عیال کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تمہاری رفیقہ حیات مرجائے تو اس کے لیے دعا کرو‘‘۔حضور اکرمﷺ نے بیوی کے حقوق کے حوالے سے فرمایا: ’’جو خود کھاؤ، انہیں بھی کھلاؤ، جیسا خود پہنو، انہیں بھی ویسا ہی پہناؤ، انہیں مارو نہیں اور نہ انہیں برے الفاظ کہو‘‘۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’انسان حُسن اخلاق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے‘‘۔

قرآن میں حکم دیا گیا: ’’وَعَاشِرُوہُنّ بِالمَعرُوف‘‘ عورتوں سے حُسن سلوک سے پیش آؤ۔ (سورۃ النساء: ۱۹) چناںچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاؤ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:’’ خیرُکمُ خیرُکمُ لأہلہ‘‘ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ ﷺنےحجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو ،وہ تمہاری زیر نگیں ہیں، تم نے انہیں اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور انہیں اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں ،جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو، اگر ایسا کریں تو تم انہیں ہلکی سزا دے سکتے ہو اور تم پر انہیں کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔

آپﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔نبی اکرم ﷺ کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں، حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے حسن معاشرت کے ساتھ ساتھ صبروتحمل سے کام لینے والا اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔

اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو کتنا بلند مقام حاصل ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں ‘‘معروف‘‘ یعنی اچھے طرزِ عمل اور حُسنِ معاشرت کاخیال کیا جائے، تاکہ وہ زندگی کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن معاشرت برتیں۔ ارشادِ ربانی ہے :اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔قرآن میں صرف حُسن معاشرت کے لیے ہی نہیں کہا گیا کہ عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا مردوں پر اللہ نے فرض کیاہے، بلکہ اسی کے ساتھ ہر طرح کے مسائل کے بارے میں کہا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے: اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔

رسول اکرم ﷺکی حیات طیبہ اور سیرت پاک کا ہر گوشہ امت کے لیے رہنمائی کا کامل منشوراور لائق تقلید نمونہ ہے۔بہ حیثیت خاوند و شوہرآپﷺ نے اس حوالےسےجو اسوۂ حسنہ امت کے سامنے پیش کیا ،وہ ہر لحاظ سے ایک روشن نمونہ ہے۔