سبق: ابتدائی طبی امداد، خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • پنجاب کریکولم اینڈ ٹکیسٹ بک بورڈ “اردو” برائے “آٹھویں جماعت”
  • سبق نمبر: 19
  • سبق کا نام: ابتدائی طبی امداد

خلاصہ سبق:

سبق “ابتدائی طبی امداد” ایک مکلماتی سبق ہے۔ جس کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایک سکول میں بچے معمول کے مطابق سکول گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے کہ دو بچے آپس میں ٹکرا جانے کی وجہ سے گر پڑے زخمی ہو گئے اور شدتِ درد سے کراہنے لگے۔اسی اثنا میں ان کے استاد عاصم صاحب نے ایک ڈبا منگوایا بچوں کی چوٹیں صاف کر کے ایک اسپرے کیا جس سے ان کا درد فوراً جاتا رہا۔دورکھڑے کچھ بچے یہ ماجرا دیکھ رہے تھے اور اس ڈبے کو دیکھ کر خاصے حیران ہوئے اور اس ڈبے کے بارے میں اپنے استاد سے پوچھنے کا سوچنے لگے۔

عاصم صاحب جب کمرہ جماعت میں آئے تو بچوں نے ان سے اس ڈبے کے بارے میں سوال کیا جس پر انھوں نے بتایا کہ اسے انگریزی میں فرسٹ ایڈ باکس اور اردو میں ابتدائی طبی امداد کا ڈبا کہتے ہیں۔ایک بچے نے سوال کیا کہ فرسٹ ایڈ کسے کہتے ہیں جس پر وہ کہنے لگے کہ فرسٹ ایڈ یا ابتدائی طبی امداد وہ مدد ہے جو کسی زخمی کو کسی حادثے یا چوٹ لگنے کی صورت میں فوری طور پر دی جاتی ہے تاکہ زخمی کا خون بہنے سے روکا جا سکے اور اس کی درد کی شدت کو کم کیا جاسکے اور ضروری مرہم پٹی کی جا سکے۔

اس امداد کا بنیادی مقصد تکلیف کی شدت کم کرنا اور زخمی کی زندگی کو خطرے سے بچانا ہوتا ہے۔اگلے طالب علم نے پوچھا کہ اس امداد کی ضرورت کب کب پڑتی ہے جس پر انھوں نے بتایا کہ ابتدائی طبی امداد کی ضرورت کسی بھی فوری ہو جانے والے حادثے کی صورت میں پڑتی ہے جیسے کہ گر جانے ، چوٹ لگنے ، مشینوں پہ کام کے وقت ہونے والے حادثات کی صورت میں ، کسی ٹریفک حادثے ،کسی سانپ وغیرہ کے کاٹ لینے اور بجلی کا کرنٹ وغیرہ لگنے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔

بچوں نے اس ڈبے میں موجود اشیاء کے بارے میں سوال کیا تو عاصم صاحب نے بتایا کہ فرسٹ ایڈ باکس میں چند ضروری دوائیں، مختلف قسم کی پٹیاں ، قینچی ، ٹیپ ، جسم سن کرنے والا اسپرے ، ٹنکچر ، آیو ڈین ، زخم اور جلنے کی جگہ پر لگانے والی مرہم اور چند دیگر اشیاء جو ابتدائی طبی امداد میں کام آتی ہیں موجود ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے بچوں کو کرنٹ لگںے، ڈوبنے والےیا جل جانے والے کو دینے والی ابتدائی طبی امداد کے مطلق بتایا کہ اگر کسی کو کرنٹ لگ جائے اور متاثرہ شخص بجلی سے چمٹ جائے تو سب سے پہلے بجلی کا مین سوئچ بند کریں تاکہ بجلی کا کرنٹ ختم ہو جائے۔ کبھی بھی متاثرہ فرد کو بغیر بجلی بند کیے ہاتھ مت لگائیں۔ کیونکہ یہ کرنٹ آپ کو بھی لگ سکتا ہے۔

کسی موٹے خشک کپڑے، کمبل یا تولیے وغیرہ سے پکڑ کر بجلی سے علیحدہ کریں اور زمین پر سیدھا لیٹا دیں ہوا کا انتظام کریں اور مریض کو جلد از جلد ہسپتال پہنچائیں۔اگر کوئی شخص پانی میں ڈوب جائے تو اسے باہر نکال کر فوراً اوندھا لٹا دیں اور اس کی پیٹھ کو آہستہ آہستہ تھپتھپائیں تا کہ فالتو پانی پیٹ سے خارج ہو سکے اگر متاثرہ فرد کو سانس رک رک کر آرہی ہو تو اسے مصنوعی تنفس دیا جائے اور جلد از جلد ہسپتال لے جائیں۔اگر کسی جگہ پر خدانخواستہ آگ لگ جائےتو سب سے پہلے اس جگہ کو خالی کروانے کی کوشش کی جائے متاثرین کو وہاں سے نکالا جائے اور آگ بجانے کی ابتدائی کوشش اپنی مدد آپ کے تحت کی جائے تاکہ آگ زیادہ نہ بھڑک سکے اور نقصان کا اندیشہ کم سے کم ہو۔

اس آگ میں اگر خدانخواستہ کو جل جائے تو جلنے والے کی جلی ہوئی جگہ پر لگاتار پانی ڈالا جائے اس کے بعد جلی ہوئی جگہ پہ مرہم لگایا جائے تاکہ درد کو کم کیا جاسکے۔ اگر زخمی زیادہ تکلیف محسوس کرے تو اسے فوراً ہسپتال لے جایا جائے۔دورانِ حادثہ اگر کسی زخمی کا بازو ٹوٹ جائے تو سب سے پہلے اس زخمی کو سیدھا لٹا کر اس کے زخموں سے بہنے والے خون کو روکا جائے اگر خون کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ اس کی ہڈی وغیرہ ٹوٹ چکی ہے تو ٹوٹی ہوئی ہڈی کے اردگرد لکڑی کی کھیچیاں باندھ دی جائیں۔اور بازو کو تکونی پٹی کی مدد سے باندھ کر سینے پر رکھ کر گلے سے لٹکا دیا جائے۔آخر میں ااستاد نے بتایا کہ مفید شہری بننے کے لیے مجموعی طور پر ہم سب کو یہ رضاکارانہ تربیت حاصل کرنی چاہیے تاکہ ہم لوگوں کے کام آ سکیں۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب دیں۔

بچے درد سے کیوں کراہنے لگے؟

بچے معمول کے مطابق سکول گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے کہ دو بچے آپس میں ٹکرا جانے کی وجہ سے گر پڑے زخمی ہو گئے اور شدتِ درد سے کراہنے لگے۔

عاصم صاحب نے جو ڈبا منگوایا اسے کیا کہتے ہیں؟

عاصم صاحب نے جو ڈبا منگوایا اسے انگریزی میں فرسٹ ایڈ باکس اور اردو میں ابتدائی طبی امداد کا ڈبا کہتے ہیں۔

ابتدائی طبی امداد کی ضرورت کب پڑتی ہے؟

ابتدائی طبی امداد کی ضرورت کسی بھی فوری ہو جانے والے حادثے کی صورت میں پڑتی ہے جیسے کہ گر جانے ، چوٹ لگنے ، مشینوں پہ کام کے وقت ہونے والے حادثات کی صورت میں ، کسی ٹریفک حادثے ،کسی سانپ وغیرہ کے کاٹ لینے اور بجلی کا کرنٹ وغیرہ لگنے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔

کراہنے کا کیا مطلب ہے؟

کراہنے کا مطلب ہوتا ہے شدتِ تکلیف یا درر کی وجہ سے آہ و پکار کرنا منھ سے مختلف طرح کی آوازیں جو درد ہونے کی صورت میں نکلتی ہیں انھیں کراہنا کہتے ہیں۔

ڈوبنے والے کو کس طرح بچایا جاتا ہے؟

اگر کوئی شخص پانی میں ڈوب جائے تو اسے باہر نکال کر فوراً اوندھا لٹا دیں اور اس کی پیٹھ کو آہستہ آہستہ تھپتھپائیں تا کہ فالتو پانی پیٹ سے خارج ہو سکے اگر متاثرہ فرد کو سانس رک رک کر آرہی ہو تو اسے مصنوعی تنفس دیا جائے اور جلد از جلد ہسپتال لے جائیں۔

فرسٹ ایڈ کسے کہتے ہیں؟

فرسٹ ایڈ یا ابتدائی طبی امداد وہ مدد ہے جو کسی زخمی کو کسی حادثے یا چوٹ لگنے کی صورت میں فوری طور پر دی جاتی ہے تاکہ زخمی کا خون بہنے سے روکا جا سکے اور اس کی درد کی شدت کو کم کیا جاسکے اور ضروری مرہم پٹی کی جا سکے۔اس امداد کا بنیادی مقصد تکلیف کی شدت کم کرنا اور زخمی کی زندگی کو خطرے سے بچانا ہوتا ہے۔

فرسٹ ایڈ باکس میں کیا ہوتا ہے؟

فرسٹ ایڈ باکس میں چند ضروری دوائیں، مختلف قسم کی پٹیاں ، قینچی ، ٹیپ ، جسم سن کرنے والا اسپرے ، ٹنکچر ، آیو ڈین ، زخم اور جلنے کی جگہ پر لگانے والی مرہم اور چند دیگر اشیاء جو ابتدائی طبی امداد میں کام آتی ہیں موجود ہوتی ہیں۔

کرنٹ لگ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟

اگر کسی کو کرنٹ لگ جائے اور متاثرہ شخص بجلی سے چمٹ جائے تو سب سے پہلے بجلی کا مین سوئچ بند کریں تاکہ بجلی کا کرنٹ ختم ہو جائے۔ کبھی بھی متاثرہ فرد کو بغیر بجلی بند کیے ہاتھ مت لگائیں۔ کیونکہ یہ کرنٹ آپ کو بھی لگ سکتا ہے۔ کسی موٹے خشک کپڑے، کمبل یا تولیے وغیرہ سے پکڑ کر بجلی سے علیحدہ کریں اور زمین پر سیدھا لیٹا دیں ہوا کا انتظام کریں اور مریض کو جلد از جلد ہسپتال پہنچائیں۔

مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں۔

ہمیں ابتدائی طبی امداد کی تربیت کیوں حاصل کرنی چاہیے؟

ابتدائی طبی امداد کی تربیت حاصل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کسی بھی ناخوشگوار پیش آنے والے واقعے کی صورت میں آپ فوری طور پر وہاں موجود متاثرہ لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ کسی زخمی کی مرہم پٹی کرکے یا اس کو ابتدائی امداد دے کر اس کی جان بچا سکتے ہیں۔کسی قدرتی آفت جیسے کہ سیلاب ، زلزلہ اور طوفان وغیرہ یا کسی اںسان کی پیدا کی گئی آفات جیسے خودکش دھماکے ، آتش زدگی وغیرہ یا گھریلو حادثات کی صورت میں خود کی یا دوسرے زخمیوں کی مدد کر سکیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زندگیاں بچا سکیں۔

اگرکسی کا باز وٹوٹ جائے تو کس طرح طبی امداد دی جاتی ہے؟

دورانِ حادثہ اگر کسی زخمی کا بازو ٹوٹ جائے تو سب سے پہلے اس زخمی کو سیدھا لٹا کر اس کے زخموں سے بہنے والے خون کو روکا جائے اگر خون کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ اس کی ہڈی وغیرہ ٹوٹ چکی ہے تو ٹوٹی ہوئی ہڈی کے اردگرد لکڑی کی کھیچیاں باندھ دی جائیں۔اور بازو کو تکونی پٹی کی مدد سے باندھ کر سینے پر رکھ کر گلے سے لٹکا دیا جائے۔

آگ لگنے کی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

اگر کسی جگہ پر خدانخواستہ آگ لگ جائےتو سب سے پہلے اس جگہ کو خالی کروانے کی کوشش کی جائے متاثرین کو وہاں سے نکالا جائے اور آگ بجانے کی ابتدائی کوشش اپنی مدد آپ کے تحت کی جائے تاکہ آگ زیادہ نہ بھڑک سکے اور نقصان کا اندیشہ کم سے کم ہو۔ اس آگ میں اگر خدانخواستہ کو جل جائے تو جلنے والے کی جلی ہوئی جگہ پر لگاتار پانی ڈالا جائے اس کے بعد جلی ہوئی جگہ پہ مرہم لگایا جائے تاکہ درد کو کم کیا جاسکے۔ اگر زخمی زیادہ تکلیف محسوس کرے تو اسے فوراً ہسپتال لے جایا جائے۔

متن کے مطابق درست جواب پر ✔️ کا نشان لگا ئیں۔ بچوں کو چوٹ لگی:

  • سیڑھوں سے گر کر ٹکر لگنے سے✔️ گیند لگنے سے شیشہ لگنے سے
  • عاصم صاحب نے منگوایا:
  • جوس پانی ایک ڈبا ✔️ کھانا
  • عاصم صاحب نے چوٹ کی جگہ پر:
  • سپرے کیا ✔️ پٹی باندھی مرہم لگائی ضرب لگائی
  • فرسٹ ایڈ دے کر کی جاتی ہے:
  • مکمل دیکھ بھال مکمل علاج زخمی کی فوری مدد ✔️ عیادت
  • ٹوٹی ہوئی ہڈی پر باندھی جاتی ہے:
  • پٹی لکڑی کی کھیچی✔️ رسی
  • جسے کرنٹ لگا ہوا سے :
  • ہاتھ نہ لگائیں✔️ زور سے آوازیں دیں سونے نہ دیں آواز نہ دیں
  • متاثرہ شخص کو :
  • الٹا لٹائیں سیدھا لٹائیں✔️ کھڑا کردیں بٹھادیں
  • آگ سے جلی ہوئی جگہ پر :
  • برف لگائیں پانی ڈالیں✔️ پٹی باندھیں مرہم نہ لگائیں

سبق کے مطابق خالی جگہ پر کریں۔

  • عاصم صاحب نے ایک ڈبا منگوایا۔
  • عاصم صاحب نے چوٹ کی جگہ پر اسپرے کیا۔
  • فرسٹ ایڈ باکس کے ذریعے سے زخمی کی بروقت مدد کی جاتی ہے۔
  • گاؤں دیہاتوں میں اکثر سانپ کاٹ لیتے ہیں۔
  • ٹوٹے ہوئے بازو پر لکڑی کی کھیچیوں کی پٹی باندھی جاتی ہے۔
  • کسی کو کرنٹ لگ جائے تو مین سوئچ بند کر دیں۔

دیے گئے الفاظ کوجملوں میں استعمال کریں۔

الفاظ جملے
تکلیف میرے معدے میں سخت تکلیف ہے۔
کراہنا علی نے درد سے کراہنا شروع کر دیا۔
آثار مجھے بارش کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔
حیران کن میری زندگی میں حیران کن تبدیلی آئی۔
معلومات مجھے ویزا کے بارے میں معلومات درکار ہیں۔
کارآمد ہمیں اپنی اشیاء کو کارآمد بنانے کی ضرورت ہے۔
حادثہ صبح سویرے بس کو ایک خطرناک حادثہ پیش آیا۔

لفظوں کا کھیل:

وہ اسم جو خود تو کسی سے بنے، مگر اس سے کئی کلمے بن سکتے ہوں، اسم مصدر کہلاتا ہے۔ مثلاً: رونا، سونا،کھیلنا لڑنا بھاگنا،ہنسنا وغیرہ۔ اس تصور کی روشنی میں درج ذیل جملوں کو پڑھیے اور مصدر الگ کیجیے۔

وہ بھاگتے بھاگتے گر گیا۔ بھاگنا سے بھاگتے بھاگتے
احمد کو کھیلنا اچھا لگتا ہے۔ کھیلنا سے کھیلتے کھیلتا
ٹھنڈا پانی پینے سے گلا خراب ہو سکتا ہے۔ پینا سے پینے
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا۔ جھپٹنا سے جھپٹنے ، پلٹنا سے پلٹنے پلٹا
ماں بچے کو دیکھ کر مسکرائی۔ مسکرانا سے مسکرائی

درج ذیل کے محاورات کو جملوں میں استعمال کریں۔

محاورات جملے
آسمان سر پر اُٹھانا بچوں نے صبح سے شور مچا مچا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔
الو بنانا کسی کم عقل کو الو بنانا غلط بات ہے۔
نو دو گیارہ ہو جانا چور چوری کے بعد جائے وقوعہ سے فوراً نو دو گیارہ ہو گیا۔
تگنی کا ناچ نچانا بچوں نے اپنی خالہ کو تگنی کا ناچ نچایا۔
سبز باغ دکھانا ہمیں کسی کو بھی نوکری کی لیے سبز باغ نہیں دکھانے چاہیے۔
سر پیٹنا اتںے بڑے نقصان کا سن کر عورت نے سر پیٹنا شروع کر دیا۔
چار چاند لگانا سجاوٹ کے ذریعے نازش کی دوستوں نے اس کی شادی میں چار چاند لگا دیے۔
  • تخلیقی لکھائی:

قائد اعظم کی شخصیت اور خدمات پر ایک جامع مضمون لکھیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح جیسی عظیم شخصیت سے کون واقف نہیں آپ معمارِپاکستان ہیں۔ برصغیر کی اسلامی تاریخ ہمیشہ آپ پر فخر کرتی رہے گی۔ آپ نے مسلمانوں کو ہندوؤں کے تسلط سے آزادی بخشی۔ قائد اعظم محمدعلی جناح ۲۵ دسمبر ۱۸۷۷ء کو کراچی میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام پونجا جناح تھا۔ آپ کا ٹھیاوار کے رہنے والے تھے۔ انکا کراچی میں چھڑے کا کاروبار تھا۔ آپ کے والد کا شمار بڑے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔

انہوں نے آپ کی پرورش بڑے ناز نیم سے کی۔آپ نے ابتدائی تعلیم کراچی کے پرائمری سکول میں حاصل کی بعد میں آپ کراچی مشن سکول میں داخل ہوئے اورسولہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان اول درجہ میں پاس کیا۔آپ قانون کی اعلی ڈگری حاصل کرنے کے لئے انگلستان چلے گئے۔وہاں آپ نے درسگاہ لنکن ان میں داخلہ لیا۔ اور وہاں سے آپ نے بیس سال کی عمر میں بیرسٹری کا امتحان پاس کر لیا۔آپ نے کراچی سے اپنی وکالت کا آغاز کیا۔ ان دنوں قائداعظم کے گھریلو حالات ناساز گار تھے۔ والدہ وفات پائیں اور والد کا کا روبارتباہ ہو گیا۔ آپ نے ہمت نہ ہاری۔

اس کے بعد آپ بمبئی چلے گئے۔آپ کے ابتدائی تین سال نہایت کٹھن تھے۔ آپ نے سرکاری ملازمت شروع کی۔ لیکن جلد ہی اس پابندی سے آزاد ہو کر پھر وکالت شروع کر دی ۔ آپ کا میاب وکیل ثابت ہوئے۔آپ نے زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ آپ نے مشہور ہندوستانی لیڈ دادا بھائی نوروجی کی انتخابی مہم میں بھر پور حصہ لیا تھا۔ اس کے بعد آپ نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاسی زندگی کا با قاعدہ آغاز کیا۔ ۱۹۰۹ء میں آپ بمبئی کے مسلم حلقے سے مرکزی کونسل کے رکن منتخب ہو گئے۔

آپ ایک بے باک اور نڈر سیاسی لیڈر تھے ۔ آپ کی جرات اور حق گوئی کے اعتراف میں اہل بمبئی نے جناح ہال تعمیر کیا۔کانگرس آپ کے نظریات پر پوری نہ اتر سکی آپ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے مگر جلد ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ کانگرس ہندوؤں کے مفاد کیلئے بنی ہے۔ آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ جب ۱۹۱۳ء میں آپ مولانامحمد علی جوہر سے ملے تو آپ کو مسلم لیگ کا صدر متخب کر لیا گیا۔ آپ نے مسلمانوں کو منظم کر کے آزادی کی کوششیں شروع کر دیں۔

ہندوؤں نے ایک نظریہ پیش کیا کہ ہندوستان میں صرف ایک و قوم بہتی ہے اور وہ ہے ہندو قوم پنڈت نہرو نے کہا کہ یہاں صرف دو طاقتیں ہیں ایک انگریز اور دوسری ہندو قوم ” قائد اعظم نے اس نظریے کو غلط قراردیکرواضح کیا کہ یہاں تین اقوام بستی ہیں اور یہ تیسری طاقت مسلمان ہیں ، آپ نے بتایا کہ مسلمان مذہب، تاریخ ،لباس، تہذیب اور زبان غرض ہر لحاظ سے مختلف ہیں۔ ۔یہی نظریہ دو قومی نظریے یعنی پاکستان کے قیام کا باعث بنا۔ ۱۹۲۸ء میں کانگرس نے جب نہر ور پورٹ پیش کی تو اس میں مسلمانوں کے مفادات کو بہت ٹھیس پہنچائی گئی ۔ قائد اعظم نے اس کے جواب میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے۔

ان نکات میں مسلمانوں کے مطالبات تھے۔ جو آنے والے وقت میں نظریہ پاکستان کی بنیاد بن گئے۔ قرار داد پاکستان قائد اعظم کی صدارت میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں مسلم لیگ سالانہ اجلاس ہوا جس میں مشہور تاریخی قرار داد قراردار پاکستان منظور ہوئی۔ اس مطالبے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں موجود ہیں ان علاقوں پر مشتمل ایک الگ مملکت قائم کر دی جائے۔یوں۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان جیسی عظیم اسلامی مملکت وجود میں آگئی۔

یہ سب قائد اعظم کے عزم واستقلال اور مسلمانوں کی مجاہدانہ کوشش کا نتیجہ تھا۔ مسلمانان ہند ایک آزاد اور عظیم پاکستان کے قیام میں کامیاب ہو گئے۔ قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے ۔ سال ہا سال کی مسلسل محنت سے آپ کی صحت خراب ہو گئی۔ آخر11ستمبر ۱۹۴۸ء کو آپ اس جہان فانی سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے ، آپ کا مقبرہ کراچی میں ہے۔ قائداعظم کے اس احسان کو رہتی دنیا تک مسلمان یاد رکھیں گے۔خدا انہیں دیارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے (آمین)۔

  • سرگرمی:

اگر کہیں کوئی ٹریفک حادثہ پیش آ جائے اور آپ وہاں موجود ہوں تو آپ حادثے کے شکار لوگوں کی کس طرح مدد کریں گے؟

خدانخواستہ اگر کوئی ٹریفک حادثہ پیش آ جائے اور میں وہاں موجود ہوں اور خوش قسمتی سے میں اس حادثے میں زخمی ہونے والے لوگوں میں نہ شامل۔ہوں تو میں اس حادثے کا شکار ہونے والے لوگوں کی دل و جان سے مدد کرنے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے زخمیوں کو اس گاڑی / بس وغیرہ سے نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ میں زخمیوں کو پانی پلاؤں گا اور اگر کسی زخمی کا خون بہہ رہا ہو گا تو اس کے خون بہنے کی جگہ سے تھوڑا اوپر یا نیچے کسی کپڑے کو تلاش کرکے اس کی مدد سے کس کر باندھو گا تاکہ خون کم سے کم بہے۔ اس کے بعد میں ایمبولینس کو جائے حادثہ پہ آنے کے لیے فون کروں گا اور ایمبولینس کے آنے تک زخمیوں کی مرہم پٹی کی کوشش جاری رکھوں گا۔