سید ضمیر جعفری کی نظم، تشریح، سوالات و جوابات

0

اشعار کی تشریح:

اسی میں ملت بیضا سما جا کود جا بھر جا
تری قسمت میں لکھا جا چکا ہے تیسرا درجہ
نہ گنجائش کو دیکھ اس میں نہ تو مردم شماری کر
لنگوٹی کس خدا کا نام لے گھس جا سواری کر

یہ بند سید ضمیر جعفری کی نظم ” اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں” سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر سید ضمیر جعفری کہتے ہیں کہ ریل کے اندر جو ایک دنیا بسی ہے بھاںت بھانت کے لوگوں کا ہجوم موجود ہے تم اس میں داخل ہو جاؤ اور تمھاری قسمت میں ریل کا یہ تیسرے درجے کا ڈبہ ہی لکھا جا چکا ہے۔اس بات کو نہ دیکھ کہ ریل کے ڈبے میں گھسنے کی گنجائش ہے بھی یا نہیں بلکہ کسی روک ٹوک کے بغیر جلد جلد ڈبے میں گھسنے کی کوشش کر تیرے لیے لوگوں کو گنںے کی کوشش کرنا بے فائدہ ہے کہ گاڑی میں پہلے سے کتنے لوگ سوار ہیں۔ یاد رکھ کہ جس طرح گاڑی کا ڈبالوگوں کھچا کھچ بھرا ہے اور لوگ حبس اور گرمی کی بدولت شور غل کر رہے ہیں اسی طرح عنقریب تیران، جلوس نکلے گا اور تو بھی ان لوگوں کی طرح واویلا کرے گا۔اس لیے اللہ کا نام لے کر گاڑی میں سوار ہو جاؤ۔

وہ کھڑکی سے کسی نے مورچہ بندوں کو للکارا
پھر اپنے سر کا گٹھرا دوسروں کے سر پہ دے مارا
کسی نے دوسری کھڑکی سے جب دیکھا یہ نظارا
زمیں پر آ رہا دھم سے کوئی تاج سر دارا
اگر یہ ریلوے کا سفر ایران جا پہنچے
تو سکھر پہ اترتا ہوا شخص اصفہان جا پہنچے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ادھر دیکھو کسی نے ان لوگوں کو آواز دی ہے جو مورچے کے اندر اس انداز میں پھنسے بیٹھے ہیں اور انھیں سر اٹھانے کی بھی جرات نہیں ہے۔ وہ یوں دبکے بیٹھے ہیں جیسے کوئی جوان دشمنوں سے بچ کر مورچے میں جا گھسا ہو۔اور ادھر دیکھو افراتفری میں کسی مسافر نے اپنے سر کا گھٹر ڈبے میں پھینکا ہے لیکن وہ ڈبے کی سطح پر گرنے کی بجائے کسی کے سر پر جا پڑا ہے اور اس سے مسافر بے چارے کو چوٹ سی لگ گئی ہے۔کوئی دوسری کھڑکی سے یہ تمام نظارہ دیکھ رہا تھا تو کہیں کسی کی شان و شوکت کاتاج دھڑام سے زمین بوس ہو رہا تھا۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر ریل کا سٹاپ ایران ہو تو جس قدر یہ ریل کھچا کھچ بھری ہوئی ہے اس اترنے والا مسافر تو ایران کی بجائے اصفہان ہی جا جر اترے گا۔

یہ سارے کھیت کے گنے کٹا لایا ہے ڈبے میں
وہ گھر کی چارپائی تک اٹھا لایا ہے ڈبے میں
کھڑے حقے بمعہ مینار آتش دان تو دیکھو
یہ قوم بے سر و سامان کا سامان تو دیکھو

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس مسافر کو دیکھو! وہ اپنے کھیت کے سارے گنے کٹوا کر اپنے ساتھ ڈبے میں لے آیا ہے اور ذرا اس مسافر کو دیکھو وہ اپنے گھر کی چار پائی تک سامان کے ساتھ ڈبے میں لے آیا ہے۔ دراصل یہ ان کی سادہ لوح مسافروں پر طنز ہے جو ریل میں سفر کرتے وقت گھر کی آدھی سے زیادہ کائنات سفر میں اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ گاڑی میں مسافروں کے لیے جگہ کم پڑ جاتی ہے اس پر مستزاد سامان ، سفر کی زیادتی اور مصیبت کا باعث بن جاتا ہے۔کوئی بمعہ آتش دان اور مینار کے پورے کا پورا کھڑا حقہ ہی اپنے ساتھ لے آیا ہے۔یہ قوم جو خود کو بے سرو سامان کہتی ہے ذرا ان کا سامان تو ملاحظہ فرمائیں۔

وہ اک رسی میں پورا لاؤ لشکر باندھ لائے ہیں
یہ بستر میں ہزاروں تیر نشتر باندھ لائے ہیں
صراحی سے گھڑا روٹی سے دسترخوان لڑتا ہے
مسافر خود نہیں لڑتا مگر سامان لڑتا ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ذرا ان مسافروں کو ملاحظہ کیجیے کہ وہ ایک ہی رسی میں ان کے پاس جو کچھ تھا باندھ کر لے آئے ہیں اور ان مسافروں کی حالت کا اندازہ کہ سامان میں ان کے پاس ایک بستر ہے اور وہ بستر میں گھر میں موجو چھوٹی اور بڑی چیز لپیٹ کر اپنے ساتھ لے آئے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ریل کے ڈبے میں مسافروں کے سمانے کی گنجائش نہیں ، میں اتنا سارا سامان کیسے آئے گا۔یہاں ریل کو منظر کچھ ایسا ہے کہ مسافر ایک دوسرے سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ ان کی صحرائی ،گھڑا اور دستر خوان جیسے سازوسامان ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب دیں۔

ریل گاڑی کے ڈبوں کے کتنے درجے ہوتے ہیں؟ نام بتائیے۔

ریل گاڑی میں عموماً تین درجوں کے ڈبے ہوتے ہیں اول جسے بزنس کلاس کہتے ہیں۔ دوم متوسط طبقے کے لیے اور سوم تیسرے درجے کے ڈبے ہوتے ہیں کچھ وقت پہلے تک تیسرے درجے کے ڈبوں میں بیت الخلا کی سہولت موجود نہ تھی۔

پاکستان کا سب سے بڑاریلوے سٹیشن کہاں ہے؟

پاکستان کا سب سے بڑاریلوے سٹیشن لاہور میں ہے۔

ریل گاڑی کے تیسرے درجے کا ڈبا کن لوگوں کے لیے مختص ہوتا ہے؟

ریل گاڑی کے تیسرے درجے کا ڈبا نچلے طبقے کے یاغریب لوگوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔

شاعر نے ملت بیضا کس کو کہا ہے؟

شاعر نے ریل گاڑی کے مسافروں یعنی اس میں سمانے والے سافروں کو ملت بیضا کہا ہے۔

لوگ گاڑی سے سفر کرنا کیوں پسند کرتے ہیں؟

ریل کا سفر بس کی نسبتاً سستا ، آرام دہ اور پر لطف ہوتا ہے اس لیے لوگ ریل کا سفر پسند کرتے ہیں۔

مورچا بند ٹرین کے مسافروں کی کس طرح مدد کرتے ہیں؟

مور ا بند لوگ ٹرین کے مسافروں کی سامان اور جگہ کی تلاش میں مدد کرتے ہیں۔

شاعر نے اس نظم میں ریل کے سفر سے متعلق کیا پیش گوئی کی ہے؟

شاعر کا کہنا ہے کہ ہماری قسمت میں یہ تیسرے درجے کا سفر لکھا جا چکا ہے اس کی مثال ایک اس طرح بھی ہے کہ سگر اس کے ذریعے کوئی سکھر اترنا چاہے تو رش کی وجہ سے وہ بمشکل ہی اتر پائے گا اور اصفہان جا پہنچے گا۔

مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں۔

(الف) ریل گاڑیوں اور جہازوں کے سفر کو ماحول دوست بھی کہا جا تاہے ؟کیوں وجہ بیان کریں۔

ریل گاڑی اور جہاز کے سفر کو ماحول دوست سفر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اگر ان دو ذرائع آمد و رفت کو استعمال کیا جائے تو ماحولیاتی آلودگی پہ بڑی حد قابو پایا جا سکتا ہے۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار کم ہو گی۔جہاز کی نسبت بھی ریل کی نقل و حمل سفر کرنے کے لئے سب سے زیادہ ماحول دوست طریقہ ہے. گرین ہاؤس ریلوے ٹرانسپورٹ پر فی کلومیٹر گیس کے اخراج کا اثر ہے 80% کاروں سے کم. کچھ ممالک میں, سے کم 3% تمام نقل و حمل کی گیسوں کے اخراج ٹرینوں سے آتے ہیں. زیادہ ماحول ٹرینوں کے مقابلے دوستانہ صرف طریقوں چل رہے ہیں۔

(ب) مزاح کے حوالے سے اس نظم کی خوبیاں اپنے الفاظ میں بیان کیجئے۔

مزاح کے پہلو سے دیکھا جائے تو اس نظم میں اردو کی صنف طنز و مزاح کی تمام خوبیاں موجود ہیں جییسے کہ شاعر مسافروں کا سازو سامان بتاتے ہوئے نظم میں مزاح کا رنگ لاتا ہے تو ساتھ ہی اس ریل کے کچھا کھچ بھرے ہونے پہ طنز بھی ملتا ہے جو خالصتاً مزاح کے لبادے میں لپٹا ہوا ہے۔

(ج) آپ کو یہ نظم کیسی لگی؟ کیا اس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق ہے؟

مجھے یہ نظم اچھی لگی اور اس میں ریل گاڑی کےسفر کی ایک حقیقی تصویر کو پیش کیا گیا ہے۔ ریل کا سفر ایک سستا اور لطف اندوز کرنے والا سفر ہے اس لیے متوسط طبقے کے زیادہ تر افراد اسے ہی سفر کا ذریعہ بناتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ریل کے سفر کی یہ منظر کشی حقیقی معلوم ہوتی ہے۔

(د) نظم کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

اس نظم میں ریل کے سفر کی منظر کشی طنزیہ انداز میں پیش کی گئی ہے۔ ریل کے مسافروں اور ان کے بھانت بھانت کے سامان کی منظر کشی کی گئی ہے۔

متن کے مطابق درست جواب پر ✔️ کا نشان لگائیں۔

  • تیری قسمت میں لکھا جا چکا ہے ؟
  • پہلا درجہ دوسرا درجہ تیسرا درجہ✔️ چوتھا درجہ
  • کھڑکی سے کس نے للکارا:
  • اپنے دوستوں کو قلی کو مورچہ بندوں کو✔️ بھائیوں کو
  • سکھر پر اترتا شخص جا پہنچے:
  • ایران افغانستان تاجکستان اصفہان✔️
  • وہ گھر کی اٹھا لایا ہے:
  • انگیٹھی تک چارپائی تک✔️ برتن تک کھڑکی تک
  • صراحی سے گھڑا روٹی سے لڑتا ہے:
  • بندہ دستر خوان✔️ بچہ سالن
  • زبان شناسی:

درج ذیل ضرب الامثال کے مفاہیم واضح کریں۔

کا ٹو تو بدن میں لہو نہیں انتہائی شرمندگی یا خوف و ہراس میں آدمی کے ہوش وحواس اُڑ جائیں تو یہ کہاوت استعمال ہوتی ہے۔ اسے’’ خون خشک ہو جانا‘‘ بھی کہتے ہیں۔
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے راز دار کی دشمنی بہت نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ کہاوت اُس محل پر بولتے ہیں جب کوئی رازدار کچھ فساد اٹھائے۔
گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جانا قصور وار کے ساتھ بے گناہ بھی سزا وار ہو جاتا ہے۔
ہمت مرداں مدد خدا کام میں کوشش شرط ہے، خدا تعالیٰ ضرور ہی مددکرتا ہے
صبح کا پیالہ، اکسیر کا نوالہ صبح کو تھوڑا سا کھا لینا بہت مفید ہوتا ہے.
  • لفظوں کا کھیل:

ان ضرب الامثال کو سمجھتے ہوئے ایسے سادہ جملوں میں استعمال کریں کہ ان کا مفہوم واضح ہو جائے۔

ضرب الامثال جملے
اونچی دکان پھیکا پکوان اس ہوٹل کے کھاںے کی مثال ایسی ہے کہ اونچی دکان پھیکا پکوان۔
آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا ایک مشکل سے نکلتے ہی دووسری مشکل میں پھنس جانے پر علی کے ساتھ وہی معاملہ ہوا کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔
دور کے ڈھول سہانے میں نے اس تفریحی مقام کی شہرت کے بارے میں بہت کچھ سنا رکھا ہے لیکن دور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہوتے ہیں۔
سانچ کو آنچ نہیں سچ کبھی نہیں چھپ سکتا کیونکہ کہ سانچ کو آنچ نہیں۔
نیکی اور پوچھ پوچھ بھوکے سے کھانے کے بارے میں پوچھنا ایسے ہی ہے کہ نیکی اور پوچھ پوچھ۔

ان الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کریں.

الفاظ جملے
مردم شماری عدالت نے مردم شماری کروانے کا حکم نامہ جاری کیا۔
ملتِ بیضا تمام ملت بیضا ایک جسدِ واحد کی طرح ہے۔
بے سروسامان احمد بے سروسامان حالت میں میرے گھر پہنچا۔
آتش دان سردی کی وجہ سے آتش دان دہک رہے تھے۔
نظارا میں نے جنگل میں ایک خوبصورت نظارا دیکھا۔
  • تخلیقی لکھائی:

درج ذیل اشعار کی تشریح کریں اور حوالہ اشعار بھی تحریر کریں۔

وہ کھڑکی سے کسی نے مورچہ بندوں کو للکارا
پھر اپنے سر کا گٹھرا دوسروں کے سر پہ دے مارا
کسی نے دوسری کھڑکی سے جب دیکھا یہ نظارا
زمیں پر آ رہا دھم سے کوئی تاج سر دارا

یہ تشریح طلب اشعار “سید ضمیر جعفری” کی نظم “اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں ” سے لیے گئے ہیں۔
اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ادھر دیکھو کسی نے ان لوگوں کو آواز دی ہے جو مورچے کے اندر اس انداز میں پھنسے بیٹھے ہیں اور انھیں سر اٹھانے کی بھی جرات نہیں ہے۔ وہ یوں دبکے بیٹھے ہیں جیسے کوئی جوان دشمنوں سے بچ کر مورچے میں جا گھسا ہو۔اور ادھر دیکھو افراتفری میں کسی مسافر نے اپنے سر کا گھٹر ڈبے میں پھینکا ہے لیکن وہ ڈبے کی سطح پر گرنے کی بجائے کسی کے سر پر جا پڑا ہے اور اس سے مسافر بے چارے کو چوٹ سی لگ گئی ہے۔کوئی دوسری کھڑکی سے یہ تمام نظارہ دیکھ رہا تھا تو کہیں کسی کی شان و شوکت کاتاج دھڑام سے زمین بوس ہو رہا تھا۔

اس نظم میں ریل کے تیسرے درجے کا جو منظر کھینچا گیا ہے اپنے الفاظ میں تحریر کریں۔

شاعر اس نظم میں ریل کے تیسرے درجے کا منظر کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ ریل میں کوئی مسافر کھڑکی سے مورچہ بندوں کو لکا ر رہا ہے اور کسی نے کسی کو گٹھڑ مار دیا ہے، کوئی اپنے سامان میں گنے اٹھالایا ہے اور کوئی اپنے گھر کی چار پائی بھی ساتھ لے آیا ہے۔ مسافروں کا سامان اتنا زیادہ ہے کہ مسافروں کے بجائے سامان آپس میں لڑتا ہے، سامان کے آپس میں ٹکرانے کی آوازیں آتی ہیں۔ کچھ مسافر رضائی میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں اور گپ شپ لگاتے ہیں۔