ہجرت نبویﷺ

0

سوال ۵ : سبق “ہجرت نبویﷺ ” کا خلاصہ تحریر کریں۔

تعارفِ سبق :

سبق ”ہجرتِ نبویﷺ“ کے مصنف کا نام ”مولانا شبلی نعمانی“ ہے۔ یہ سبق کتاب ” سیرۃ النبی ﷺ “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف :

شبلی نعمانی یو پی میں پیدا ہوئے۔ آپ اعلیٰ تعلیم اور وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ کالج سے وابستہ ہوگئے۔ علامہ شبلی نعمانی دبستان سرسید احمد خان کے اہم رکن تھے۔ ان کی علمی اور ادبی صلاحیتوں کو سر سید نے پہچان کر کم عمری میں ہی انھیں علی گڑھ کالج کی ذمہ داریاں دے دی تھیں۔ ان کی شخصت محض ایک روپ میں سامنے نہیں آتی بلکہ وہ عظیم مورخ، ماہر تعلیم، نقاد، شاعر ، مذہبی عالم اور محدث بن کر نمودار ہوئے۔ شبلی کا اسلوب بیان اتنا دلکش اور واضح ہے کہ جس کا اثر قاری باقاعدہ محسوس کرتا ہے۔ شبلی نعمانی کی اہم تصنیفات میں سیرت النبیﷺ، الفاروق، المامون، الغزالی، سیرت نعمان، سفرنامہ روم، سوانح مولانا روم، دستہ گل، شعرالعجم، کتب خانہ اسکندریہ شامل ہیں۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف نت ہجرت نبوی ﷺ کا ذکر کیا ہے۔ ہجرت نبوی ﷺ سے مراد وہ ہجرت ہے جو حضور ﷺ نے نبوت کے تیرھویں سال کے آغاز میں کی تھی۔ جب قریش نے ان کے قتل کے ارادے سے ان کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی طرف فرمائی تھی۔

رسول پاک ﷺ نے نبوت کے تیرھویں سال مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ ہجرت کرتے وقت ہمارے نبی ﷺ اپنے پاس موجود لوگوں کی تمام امانتیں حضرت علیؓ کے حوالے کر کے گئے تھے۔
رسول پاکﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا : “مجھے ہجرت کا حکم ہوچکا ہے ، میں آج مدینہ روانہ ہو جاؤں گا ، تم میرے پلنگ پر میری چادر اوڑھ کر سو رہو ، صبح کو سب کی امانتیں جاکر واپس دے آنا۔” یہاں مصنف حضرت علی کی بہادری کا ذکر کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب آپﷺ کو قریش کی چال کا علم ہوگیا تو انھوں نے ہجرت کرنے سے پہلے حضرت علی کو بلایا اور ان سے کہا کہ اس وقت میرے پاس لوگوں کی امانتیں موجود ہیں، لیکن مجھے ہجرت کرنے کا حکم ہوا ہے۔ لہذا تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور کل سویرے یہ تمام امانتیں ان کے مالکوں کو دے کر تم واپس آجانا۔

مصنف کہتے ہیں کہ اس وقت قریش مکہ آپ ﷺ کی جان کے در پے تھے اور آپﷺ کے بستر پر سونا نہایت خطرناک تھا لیکن فاتحِ خیبر یعنی حضرت علیؓ کے لیے یہ خطرناک کام بھی مشکل نہیں تھا بلکہ ان کے لیے آپؐ کا بستر پھولوں سے بھرے بستر کی مانند تھا۔ اس لیے اُس رات آپﷺ نے وہاں سے ہجرت کرلی اور اپنی جگہ حضرت علیؓ کو وہاں چھوڑ دیا۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی حضرت ابوبکر صدیق کی بڑی بیٹی اور حضرت عائشہ ام المؤمنین کی بڑی بہن تھیں۔ حضرت اسماء نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق کو تین دن کھانا پہنچایا تھا۔ قریش نے رسول پاک ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گرفتار کرکے لانے والے کے لیے ایک خون بہا کے برابر انعام مقرر کیا تھا یعنی جو شخص رسول پاک ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گرفتار کر کے لائے گا اسے سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے۔

جب آپ ﷺ غار سے مدینہ کی جانب روانہ ہورہے تھے سراقہ بن حجشم نے عین اس حالت میں آپ ﷺ کو دیکھ لیا، وہ گھوڑا دوڑا کر قریب آیا لیکن گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ گر پڑا۔ اس نے ترکش سے فال کے تیر نکالا تاکہ آپﷺ پر حملہ کر سکے۔ اس نے اپنے دل سے سوال کیا کہ آپﷺ پر حملہ کرنا چاہئیے یا نہیں؟ جواب میں اس کے دل نے ” نہیں” کہا۔ مگر اس کے دل میں سو اونٹوں کا خیال آیا رو وہ دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوا اور آگے بڑھا۔ اب کی بار گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے۔ اس نے دوبارہ فال نکالا لیکن دل کی رضا مندی نہ پا کر آپﷺ پر حملہ نہیں کیا۔

سوال ۱ : مختصر جواب دیں۔

(الف) ہجرت نبویﷺ سے کیا مراد ہے؟

جواب : ہجرت نبوی ﷺ سے مراد وہ ہجرت ہے جو حضور ﷺ نے نبوت کے تیرھویں سال کے آغاز میں کی تھی۔ جب قریش نے ان کے قتل کے ارادے سے ان کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی طرف فرمائی تھی۔

(ب) رسول پاک ﷺ نے نبوت کے کون سے سال ہجرت فرمائی؟

جواب : رسول پاک ﷺ نے نبوت کے تیرھویں سال مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

(ج) حضرتِ امیر ؓ سے کون سی شخصت مراد ہے؟

جواب : حضرتِ امیر ؓ سے مراد ہے حضرت علی ؓ ہیں۔ ہجرت کرتے وقت ہمارے نبی ﷺ اپنے پاس موجود لوگوں کی تمام امانتیں حضرت علیؓ کے حوالے کر کے گئے تھے۔

(د) رسول پاکﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا ارشاد فرمایا؟

جواب : رسول پاکﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےارشاد فرمایا : ” مجھے ہجرت کا حکم ہوچکا ہے ، میں آج مدینہ روانہ ہو جاؤں گا ، تم میرے پلنگ پر میری چادر اوڑھ کر سو رہو ، صبح کو سب کی امانتیں جاکر واپس دے آنا۔ “

(ہ) حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کون تھیں؟

جواب : حضرت اسماء رضی اللہ تعالی حضرت ابوبکر صدیق کی بڑی بیٹی اور حضرت عائشہ ام المؤمنین کی بڑی بہن تھیں۔ حضرت اسماء نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق کو تین دن کھانا پہنچایا تھا۔

(و) قریش نے رسول پاک ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گرفتار کرنے کا کیا انعام مقرر کیا؟

جواب : قریش نے رسول پاک ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گرفتار کرکے لانے والے کے لیے ایک خون بہا کے برابر انعام مقرر کیا تھا یعنی جو شخص رسول پاک ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گرفتار کر کے لائے گا اسے سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے۔

(ز) سراقہ حجشم کیسے تائب ہوا؟

جواب : جب آپ ﷺ غار سے مدینہ کی جانب روانہ ہورہے تھے سراقہ بن حجشم نے عین اس حالت میں آپ ﷺ کو دیکھ لیا، وہ گھوڑا دوڑا کر قریب آیا لیکن گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ گر پڑا۔ اس نے ترکش سے فال کے تیر نکالا تاکہ آپﷺ پر حملہ کر سکے۔ اس نے اپنے دل سے سوال کیا کہ آپﷺ پر حملہ کرنا چاہئیے یا نہیں؟ جواب میں اس کے دل نے ” نہیں” کہا۔ مگر اس کے دل میں سو اونٹوں کا خیال آیا رو وہ دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوا اور آگے بڑھا۔ اب کی بار گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے۔ اس نے دوبارہ فال نکالا لیکن دل کی رضا مندی نہ پا کر آپﷺ پر حملہ نہیں کیا۔

سوال ۲ : متن کو مدنظر رکھتے ہوئے موزوں الفاظ کی مدد سے خالی جگہ پر کریں۔

  • (الف) حافظِ عالم نے مسلمانوں کو دار الامان (مدینہ) کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔
  • (مکہ، مدینہ، طائف، یمن)
  • (ب) نبوت کا (تیرھواں) سال شروع ہوا اور اکثر صحابہ مدینے چکے ، تو وحی الہٰی کے مطابق آنحصرتؐ نے بھی مدینے کا عزم فرمایا۔
  • (بارھواں، دسواں، تیرھواں، پندرھواں)
  • (ج) اس وقت بھی آپؐ کے پاس بہت سی (امانتیں) جمع تھیں۔
  • (تلواریں، امانتیں، کھجوریں، نعمتیں)
  • (د) (جناب امیرؓ) کو معلوم ہو چکا تھا کہ قریش آپؐ کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں۔
  • (جناب ابوبکرؓ، جناب عمرؓ، جناب امیرؓ ، جناب عثمانؓ)
  • (ہ) (حضرت ابوبکر) سے پہلے قرار داد ہو چکی تھی۔
  • (حضرت عمر، حضرت زید، حضرت علی، حضرت ابوبکر)
  • (و) اسی طرح (تین) راتیں غار میں گزاریں۔
  • (تین، چار، پانچ، سات)

سوال ۳ : درج ذیل بیانات میں سے درست کی نشاندہی (درست) اور غلط کی نشان دہی (غلط) سے کریں۔

  • (الف) دعوتِ حق کے جواب میں ہر طرف سے تلوار کی جھنکاریں سنائی دے رہی تھیں۔ (درست)
  • (ب) حافظِ عالم نے مسلمانوں کو دار الامان حبشہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔ (غلط)
  • (ج) نبوت کے تیرھویں سال اکثر اصحابہ مدینے پہنچ چکے تھے۔ (درست)
  • (د) سب لوگوں نے ایک ہی رائے پیش کی۔ (غلط)
  • (ہ) اہل عرب زنانہ مکان کے اندر گھسنا معیوب سمجھتے تھے۔ (درست)
  • (و) فاتخِ خیبر کے لیے قتل گاہ فرش گل تھا۔ (درست)
  • (ز) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام رات گئے ، بکرایں چرا کر لاتا۔ (درست)
  • (ح) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر سے کھانا پکا کر غار میں پہنچاآتی تھیں۔ (غلط)
  • (ط) صبح قریش کی آنکھیں کھلیں تو پلنگ پر آنحضرتؐ کے بجائے جناب امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ (درست)
  • (ی) نبی کریمﷺ کی تشریف آوری کی خبر مدینے میں پہنچ چکی تھی۔ (درست)

سوال ۴ : کالم (الف) میں دیئے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔

دارالامان مدینہ
دیانت امانت
قتل گاہ فرش گل
ہمہ تن چشم انتظار
تلوار جھنکاریں

سوال ٦ : درج ذیل الفاظ و تراکیب کا تلفظ اعراب کی مدد سے واضح کریں۔
﴿حافظ ، عالم، وجود اقدس، دارالامان، قبائل، محاصرہ، عداوت، بوسہ گاہ خلائق ، قتل گاہ، فرش گل﴾

حافظِ
عالَم
وَجُودِ اَقَدْس
دَارُالْامَان
قبَائل
مُحَاصَرْہ
عَداوَت
بُوْسَہ گاہِ خَلائِق
قَتْل گَاہ
فَرْشِ گُل

سوال ۷ : درج ذیل کے معنی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں۔

دعوتِ حق : اسلام کی دعوت اللہ نے انسانوں کو دعوتِ حق دینے کے لیے قرآن کو زمین پر اتارا۔
ہدف : نشانہ بادشادہ نے اپنی رعایا پر رعب جمانے کے لیے غریب لوگوں کو اپنا ہدف بنایا۔
معیوب : شرمندگی کا باعث اہل عرب زنانہ مکان کے اندر گھسنا معیوب سمجھتے تھے۔
ترکش : تیر دان جنگ کے دوران جب اس کی نظر اپنی ترکش پر پڑی تو وہ خالی ہوچکی تھی۔

سوال ۸ : جمع کے واحد اور واحد کی جمع لکھیں۔

ہدف : اہداف
جھنکار : جھنکاریں
رائے : رائیں
زنجیر : زنجیریں
قبیلہ : قبائل

سوال ۹ : درج ذیل اقتباس کی تشریح سیاق و سباق کے حوالے سے کریں۔

اس بنا پر جنابِ امیر حضرت علیؓ کو بلا کر فرمایا : ” مجھ کو ہجرت کا حکم ہوچکا ہے، میں آج مدینے روانہ ہوجاؤں گا، تم میرے پلنگ پر میری چادر اوڑد کر سو رہو، صبح کو سب کی امانتیں جا کر واپس دے آنا۔ “ یہ سخت خطرے کا موقع تھا۔ جنابِ امیر ؓ کا معلوم ہوچکا تھا کہ قریش آپؐ کے قتل کا ارادہ کرچکے ہیں اور آج رسول اللہ ﷺ کا بسترِ خواب قتل گاہ کی زمین ہے، لیکن فاتحِ خیبر کے لیے قتل گاہ فرشِ گُل تھا۔

حوالہ : یہ اقتباس سبق ہجرت نبویﷺ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام مولانا شبلی نعمانی ہے۔ یہ سبق کتاب سیرۃ النبیﷺ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تشریح : اس اقتباس میں مصنف حضرت علی کی بہادری کا ذکر کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب آپﷺ کو قریش کی چال کا علم ہوگیا تو انھوں نے ہجرت کرنے سے پہلے حضرت علی کو بلایا اور ان سے کہا کہ اس وقت میرے پاس لوگوں کی امانتیں موجود ہیں، لیکن مجھے ہجرت کرنے کا حکم ہوا ہے۔ لہذا تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور کل سویرے یہ تمام امانتیں ان کے مالکوں کو دے کر تم واپس آجانا۔ مصنف کہتے ہیں کہ اس وقت قریش مکہ آپ ﷺ کی جان کے در پے تھے اور آپﷺ کے بستر پر سونا نہایت خطرناک تھا لیکن فاتحِ خیبر یعنی حضرت علیؓ کے لیے یہ خطرناک کام بھی مشکل نہیں تھا بلکہ ان کے لیے آپؐ کا بستر پھولوں سے بھرے بستر کی مانند تھا۔ اس لیے اُس رات آپﷺ نے وہاں سے ہجرت کرلی اور اپنی جگہ حضرت علیؓ کو وہاں چھوڑ دیا۔

سوال۱۰ : درج ذیل تراکیب کے معنی لکھیں۔

آستانہ مبارک اولیاء کی قبر
بوسہ گاہ خلائق لوگوں کے بوسہ دینے کی جگہ( حجرے اسود)
فرش گل پھولوں کی سیج
گراں بہا بیش قیمتی
ہمہ تن چشم انتظار سراپا انتظار