پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

0

تعارفِ نظم :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تعارفِ شاعر :

شیخ محمد اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ بانگِ درا ، ضربِ کلیم ، بالِ جبریل اور ارمغان حجاز ان کے اردو کلام پر مشتمل کتابیں ہیں۔ پہلے وطن دوستی پھر ملت دوستی اور پھر انسان دوستی ان کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو صحیح سمت عطا کی۔

ڈالی گئی جو فصلِ خزاں میں شَجر سے ٹُوٹ
مُمکن نہیں ہری ہو سحابِ بہار سے

تشریح :

نظم “پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” شاعر علامہ محمد اقبالؒ نے لکھی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ مسلمانوں کے رہنما اور اپنی قوم کا درد رکھنے والے شخص تھے۔ اس شعر میں وہ مسلمانوں کو اکٹھے رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ درخت اور ٹہنی کی مثال دیتے ہیں کہ جیسے ٹہنی درخت سے الگ ہو کر سوکھ کر ختم ہو جاتی ہے ویسے ہی جب کوئی شخص اپنی ملت سے الگ ہوتا ہے وہ اس کے لیے انفرادی طور پر نقصان دہ ہے۔مسلمان جب آپس میں ایک نہیں ہونگے تو اس سے مخالف کو مسلمانوں پر غلبہ پانا آسان ہوگا مگر اگر مسلمان متحد ہوں اور ایک جان ہوں تو وہ ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔مسلمانوں کی عزت اسی میں ہے کہ وہ مل کر ایک ہو کر رہیں کسی غیر کو اپنے اوپر غالب آنے نہ دیں مسلمانوں کا اتحاد ہی مسلمانوں کی کام یابی کی وجہ ہے۔مسلمان اپنی قیادت سے الگ ہو جائیں گے تو وہ نقصان اٹھائیں گے۔

ہے لازوال عہدِ خزاں اُس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اُسے برگ و بار سے

تشریح :

نظم “پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” شاعر علامہ محمد اقبالؒ نے لکھی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ مسلمانوں کے رہنما اور اپنی قوم کا درد رکھنے والے شخص تھے۔ اس شعر میں وہ مسلمانوں کے خضر راہ بن کر انھیں یہ بات سمجھاتے ہیں کہ جو لوگ اپنی قوم سے الگ ہو جاتے ہیں وہ کبھی کام یاب نہیں ہو سکتے جیسے درخت سے ٹوٹی ٹہنی کبھی ہری نہیں ہوتا اس پر سدا کا زرد رنگ چڑھ جاتا ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہیے اسی میں مسلمانوں کی بقا ہے۔ اگر مسلمان قوم سے الگ ہو جائیں اور فرداً فرداً ہو جائیں تو باقی قومیں ان پر غلبہ پا لیں گی اور مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اتفاق میں برکت ہے اسی لیے دین اسلام بھی ہمیں انفرادی زندگی بسر کرنے پر اجتماعیت کا درس دیتا ہے۔

ہے تیرے گُلِستاں میں بھی فصلِ خزاں کا دَور
خالی ہے جیبِ گُل زرِ کامل عیار سے

تشریح :

نظم “پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” شاعر علامہ محمد اقبالؒ نے لکھی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ مسلمانوں کے رہنما اور اپنی قوم کا درد رکھنے والے شخص تھے۔ اس شعر میں وہ مسلمانوں کی موجودہ حالت کو بیان کرتے ہیں کہ تم قوم و ملت سے کٹ چکے ہو تمہاری مثال کٹی ہوئی ٹہنی کی سی ہے جس پر خزاں کا دور آیا ہوا ہے۔ برصغیر میں مسلمان چوں کہ ایک اقلیت قوم تھی اور ہندوؤں سے برسرِ پیکار تھی اس پر علامہ مسلمانوں کو ایک جان ہونے کا کہتے ہیں۔وہ مسلمانوں کے کمزور ایمان اور تباہ حال کو دیکھ کر یہی تلقین کرتے ہیں کہ گل بھی گلشن سے دور رہ کر سدا چمکتا نہیں رہتا بلکہ وہ مرجھا جاتا ہے۔وہ زندہ قوموں کے جیسے یکجاں ہونے پر زور دیتے ہیں۔

جو نغمہ‌زن تھے خَلوتِ اوراق میں طیور
رُخصت ہوئے ترے شجَرِ سایہ‌دار سے

تشریح :

نظم “پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” شاعر علامہ محمد اقبالؒ نے لکھی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ مسلمانوں کے رہنما اور اپنی قوم کا درد رکھنے والے شخص تھے۔ اس شعر میں وہ مسلمانوں کو بتاتے ہیں کہ جب مسلمان تفرقوں میں بٹ گئے اور ہر شخص انفرادی حیثیت سے زندگی گزارنے لگا تو اس سے یہ نقصان ہوا کہ اہل علم اور کام یاب لوگ بھی تم سے دور ہو گئے وہ بھی انفرادی زندگی گزارنے لگے جس سے تمام ملت کو نقصان ہے۔ وہ اتفاق کی اہمیت بتاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ جہاں نااتفاقی ہو جائے وہاں پھر غیر غالب آجاتا ہے۔ سب اگر انفرادی زندگی گزارنے لگے تو وہ درخت جسے قوم یا ملت کہا جاتا ہے وہ بھی بکھرتےبکھرتے ختم ہو جائے گی۔ وہ مسلمانوں کو کامیابی کا راز بھی بتاتے ہیں کہ اگر تم مل کر متحد ہو کر ایک مٹھی بن کر رہو گے تو کامیابی بھی تمہارے ہاتھ لکھ دی جائے گی۔

شاخِ بُریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تُو
ناآشنا ہے قاعدۂ روزگار سے

تشریح :

نظم “پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” شاعر علامہ محمد اقبالؒ نے لکھی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ مسلمانوں کے رہنما اور اپنی قوم کا درد رکھنے والے شخص تھے۔ اس شعر میں وہ مسلمانوں کو عروج حاصل ہوا اس لیے کہ وہ متحد تھے ایک قوم کی طرح وہ آپس میں انفرادی زندگی نہیں گزارتے تھے بلکہ اجتماعی طور پر یکجا تھے۔ آج مسلمانوں کی حالت زار کی وجہ یہی ہے کہ انفرادیت نے ان میں وہ قوت ختم کر دی ہے جو اجتماع میں تھی۔ مسلمانوں کو اس کٹی ٹہنی سے سبق لینا چاہیے کیسے وہ درخت سے الگ ہوئی اور پھر اس کا وجود ختم ہو گیا ایسے ہی مسلمانوں بھی اگر انفرادی حیثیت کو زیادہ توجہ دیں گے تو ان کے لیے نقصان ہے۔ وہ مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے جگا کر کہتے ہیں کہ آپسی اختلافات کو ختم کرکے ملت سے تعلقات کو استوار کرو یہی تمہاری ترقی کا راز ہے۔

مِلّت کے ساتھ رابطۂ اُستوار رکھ
پیوستہ رہ شجَر سے، امیدِ بہار رکھ!

تشریح :

نظم “پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” شاعر علامہ محمد اقبالؒ نے لکھی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ مسلمانوں کے رہنما اور اپنی قوم کا درد رکھنے والے شخص تھے۔ اس شعر میں وہ امت مسلمہ کے ہر فرد کو اچھے دنوں کی امید دلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہیں۔ وہ اپنے اختلافات بھلا کر ایک جان ہو کر زندگی گزاریں۔ ہر شخص ہی قوم و ملت سے جڑا ہوا ہو تو پھر مسلمانوں کا اچھا وقت آسکتا ہے۔ وہ امت محمدیہؐ پر قائم رہنے کاکہتے ہیں اور ساتھ یہ نوید سناتے ہیں کہ اگر مسلمان ایک امت ہو کر رسول اللہ ﷺ کے حکم پر زندگی گزاریں تو کامیابی ان کا مقدر بن جائے گی۔ مسلمانوں کے اتحاد سے ہی اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں فرشتوں کی مدد بھیجی تھی ویسے ہی اگر مسلمان آج بھی متحد ہو جائیں تو ان کی تائید ونصرت اللہ فرمائے گا۔

سوال ۱ : درج ذیل سوالوں کے جواب دیں۔

(الف) اقبال نے ڈالی اور شجر سے کیا مراد لیا ہے؟

جواب : علامہ محمداقبالؒ نے ڈالی اور شجر سے مرد و ملت یا قوم مراد لیا ہے۔

(ب) عہد خزاں کس کے واسطے لازوال ہے؟

جواب : عہد خزاں درخت سے ٹوٹ کر گرنے والی ٹہنی اور اپنی ملت سے الگ ہونے والے فرد کے لیے لازوال ہے۔

(ج) کس کے گلستان میں فصل خزاں کا دور ہے؟

جواب : شعر کے مطابق گلستان میں فصل خزاں کے دور سے مراد مسلمانوں کی حالت زار ہے۔ مسلمان آپس کے انتشار کے باعث اپنی قوت کھو بیٹھے ہیں اور کفار نے بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اپنا غلام بنا کر رکھ دیا۔

(د) جیب گل کس چیز سے خالی ہے؟

جواب : جیب گل زر کامل عیار سے خالی ہے یعنی پھولوں کی جیب سونے سے خالی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کا فقدان ہے۔

(ہ) خلوت اوراق میں کون نغمہ زن تھے؟

جواب : خلوت اوراق میں طیور نغمہ زن تھے۔

(و) ہمیں کس چیز سے سبق اندوز ہونا چاہیے؟

جواب : ہمیں درخت سے ٹوٹی ہوئی ٹہنی سے سبق اندور ہونا چاہیے جو درخت سے کٹ کر کبھی ہری نہیں رہ سکتی۔

(ز) امید بہار کے لیے کس بات کی ضرورت ہے؟

جواب : امید بہار کے لیے شجر سے پیوستہ رہنے کی ضرورت ہے اس سے مراد ہے کہ ملت اسلامی کو آپس میں ایک ہو کر اتفاق و اتحاد سے رہنا ضروری ہے۔

سوال ۲ : اس نظم کے قوافی کی نشان دہی کریں۔

جواب : اس نظم میں بہار، بار، عیار، سایہ دار، روزگار قافیہ کے طور استعمال کیے گیے ہیں۔

سوال ۳ : مندرجہ ذیل شعر کی نثر بنائیں۔

جو نغمہ زن تھے خلوت اوراق میں طیور
رخصت ہوئے ترے شجر سایہ دار سے

جواب : خلوت اوراق میں جو طیور نغمہ زن تھے(وہ) تیرے شجر سایہ دار سے رخصت ہوئے۔

سوال ۴ : کالم (الف) میں دیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔

کالم (الف) کالم (ب)
ڈالی شجر
فصل خزاں سجاب بہار
واسطہ تعلق
نغمہ زن طیور
جیب گل زرکامل عیار
شاخ بریدہ سبق اندوز
ناآشنا آشنا

سوال ۵ : مندرجہ ذیل تراکیب اور مرکبات کے معنی بتائیں اور جملوں میں استعمال کریں۔

فصل خزاں پت جھڑ کا موسم محبوب کے بغیر فصل بہار بھی فصل خزاں کی مانند ہے۔
سحاب بہار موسم بہار کا بادل سحاب بہار کے برسنے سےمعلوم ہوتا ہے کہ قدرت نے جیسے سبز پیراہن اوڑھ لیا ہو۔
عہد خزاں بےرونقی کا زمانہ ہر سال درختوں پر انے والا عہد خزاں بھی دل کو افسردہ کردیتا ہے۔
برگ و بار پھل اور پتے گاوں میں داخل ہوتے ہی درخت اور ان پر برگ وبار کی بہار نے طبیعت بشاش کردی ۔
نغمہ زن گیت گانے والے صبح کی پہلی کرن کے زمین پر اترتے ہی طائر بھی اپنی نغمہ زنی کرنے لگتے ہیں
خلوت اوراق پتوں کے پیچھے خلوت اوراق میں چھپے پھل پھول پرندوں سے محفوظ رہے۔
شجرسایہ دار وہ درخت جس کے نیچے چھاؤں ہو دیہاتوں میں شجرسایہ دار چاروں اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
شاخ بریدہ کٹی ہوئی ٹہنی چڑیا افسردہ نظروں سے شاخ بریدہ کے ساتھ پڑے گھونسلے کو دیکھ رہی تھی۔
سبق اندوز سبق سیکھنے والے زندگی میں کئی حادثات سبق اندوز بن کر آتے ہیں تو زندگی سنوار دیتے ہیں۔
قاعدہ روزگار زمانے کے طور طریقے اس زمانے کے قاعدہ روزگار کے ساتھ چلنا بھی ناممکن ہی ہے۔
امید بہار خوشی یا سبزے کی امید خزاں زدہ ٹہنیوں کو امید بہار بھی رہتی ہے۔

سوال ٦ : واحد کی جمع اور جمع کی واحد لکھیں۔

واحد جمع
شجر اشجار
نغمہ نغمات
ملت ملتیں
رابطہ روابط
فرد افراد
ورق اوراق
طیر طیور
قوم اقوام

سوال ۷ : درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔

خزاں بہار
گل خار
لازوال فانی
اتفاق نفاق
امید یاس

سوال ۸ : مندرجہ ذیل الفاظ پر اعراب لگا کر ان کا تلفظ واضح کریں۔

فَصُلُ۔
سَحَابُ۔
بُرِیدَہُ۔
گُلِستَان۔
سَبَقُ۔
رُوُزگَارُ۔
خَلُوَتُ۔
اُمِّیُدُ۔

سوال ۹ : مناسب لفظ کی مدد سے مصرعے مکمل کریں۔

(الف) ملت کے ساتھ رابطہ ۔۔۔۔۔ رکھ (استوار)
(ب) ڈالی گئی جو فصل خزاں میں۔۔۔۔سے لوٹ (شجر)
(ج) ہے۔۔۔۔۔عہد خزاں اس کے واسطے (لازوال)
(د) جو۔۔۔۔۔تھے خلوت اوراق میں طیور (نغمہ زن)
(ہ) ممکن نہیں ہری ہو۔۔۔۔۔بہار سے (سحاب)

سوال۱۰ : علامہ اقبالؒ نے کس طرح اس نظم میں فرد اور قوم کے تعلق کو واضح کیا ہے؟

جواب : اس نظم میں علامہ محمد اقبالؒ نے فرد اور قوم کے تعلق کو ٹہنی اور درخت کی مثال سے تشبیہ دی ہے، جیسے شاخ درخت سے الگ ہو کر بے کار ہو جاتی ہے ویسے ہی فرد بھی اپنی ملت سے الگ ہو کر نقصان میں رہتا ہے۔

سوال ۱۱ : “فصل خزاں” اور “رابطہ استوار” کو قواعد کی رو سے مرکب اضافی کہا جاتا ہے۔ اس نظم سے مرکب اضافی کی مزید پانچ مثالیں تلاش کرکے اپنی کاپی پر لکھیں۔

جواب : اس نظم میں مرکب اضافی درج ذیل ہیں: سحاب بہار، عہد خزاں، جیب گل، رابطہ استوار ، قاعدۂ روزگار۔