نعت امیر مینائی تشریح

0

نظم : نعت
شاعر : امیر مینائی
ماخوذاز : ”محامدِ خاتم النبیین“

تعارفِ نظم :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”نعت“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام امیر مینائی ہے۔ یہ نظم ”محامدِ خاتم النبیین“ امیر مینائی سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعر :

امیر مینائی نے حمد ، نعت ، مثنوی ، قصیدے ، اور غزل میں اظہارِ خیال کیا مگر آپ کی خاص وجہ شہرت نعتیہ شاعری ہے۔ آپ کی شاعری عوام میں بہت مقبول ہے۔ آپ کی کتب ”انتخابِ یادگار، صنم خانہ عشق، امیر اللغات، مراۃ الغیب، مینائے سخن، خیابانِ آفرینش اور محامد خاتم النبیین“ قابلِ ذکر ہیں۔

صبا بے شک آتی مدینے سے تو ہے
کہ تجھ میں مدینے کے پھولوں کی بو ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ہواؤں س کہتے ہیں کہ جب ہوائیں صبح کے وقت مدینے سے آتی ہیں تو میرا من سکون سے بھر جاتا ہے۔ وہ صبح کی ان ہواؤں سے کہتے ہیں کہ تم میرے نبی پاکﷺ کے شہر سے معطر ہو کر آئی ہو۔اس ہوا میں وہ پھولوں کی خوشبو محسوس کرتے ہیں یہ ان کی محبت کا تقاضا ہے وہ اپنے محبوب کے شہر کی ہوا کو بھی خوشبو سے تشبیہ دیتے ہیں۔ شاعر شہر مدینہ سے آنے والی ہواؤں اور آدمی دونوں کو خوش نصیب سمجھتا ہے کہ وہ اس شہر پاک سے آئیں ہیں جہاں روضہ رسولﷺ موجود ہے۔ شاعر شہر مدینہ سے اس قدر محبت حضوراطہر ﷺ کی وجہ سے کرتا ہے اور اسے وہاں کی ہوائیں بھی مسحور کن معلوم ہوتی ہیں۔

سنی ہم نے طوطی و بلبل کی باتیں
ترا تذکرہ ہے، تری گفتگو ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب نبی کریمﷺ دنیا میں تشریف لائے تو آپ نے نہ صرف انسانوں پر بلکہ جانوروں اور پرندوں پر بھی شفقت فرمائی ان سے پیار کیا۔ شاعر کہتے ہیں کہ جب میں طوطا و بلبل کو ذکر کرتا سنتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی آپ ﷺ کی نعت پڑھ رہے ہیں ان پر درود پڑھ رہے ہیں۔ گویا وہ اپنی اپنی بولیوں میں آپﷺ سے عقیدت کا اظہار کررہے ہیں۔

جیوں تیرے در پر، مروں تیرے در پر
یہی مجھ کو حسرت یہی آرزو ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے گویا ہوتے ہیں کہ اے نبیﷺ میری ہر ایک ہی خواہش ہے اور وہ یہ ہے میں تمام عمر آپ ﷺ کی چوکھٹ پر بسر کروں۔ یہاں تک کہ میری روز بھی اسی در پر بیٹھے بیٹھے قبض کر لی جائے۔ شاعر اس میں اپنی اس خواہش کے پورا کر دینے کی التجا کرتے ہیں۔ وہ شہر مدینہ میں مستقل قیام پزیر ہو کر روضہ رسولﷺ پر اپنی ساری زندگی گزارانا چاہتے ہیں۔ انھیں شہر مدینہ سے محبت ہے اور یہ محبت آپﷺ کے سبب ہے۔

جمے جس طرف آنکھ، جلوہ ہے اس کا
جو یک سو ہو دل تو وہی چار سو ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر آپﷺ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں جس طرف بھی دیکھوں مجھے آپﷺ کا جلوہ ہی نظر آتا ہے۔ آپ ﷺ میرے دل میں بستے ہیں ان کے خیالات میرے دماغ میں ہر وقت ہیں اسی واسطے میں جس جانب دیکھتا ہوں مجھےآپ ﷺ نور نظر آتا ہے۔جب میرا من آپﷺ کی دید کی چاہت کرتا ہے تو میں اپنے چاروں اور آپ ﷺ کو محسوس کرتا ہوں۔شاعر اپنی تمام تر توجہ آپﷺ پر لگائیے ہوئے ہے اسے ہر جانب آپﷺ کا نور دکھائی دیتا ہے۔

تری راہ میں خاک ہو جاٶں مر کر
یہی میری حرمت، یہی آبرو ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر اپنے احساسات بتائے ہیں کہ میری آرزو ہے کہ میں آپ ﷺ کی راہ میں آپ ﷺ کے قدموں کی خاک ہو جاؤں۔ میری زندگی کا یہی مقصد ہے کہ میری زندگی آپﷺ کے راستے پر گزرے۔ شاعر آپﷺ کی عزت و عظمت سے واقف ہے وہ کہتے ہیں کہ میری تمنا ہے کہ میں آپ ﷺ کا دیدار کروں آپ ﷺکے قدموں کی خاک ہو کر آپ ﷺ کی پابوسی کروں۔ آپﷺ سے محبت ہی میری زندگی کا مقصد ہے میں آپ کی راہ کی دھول بن جاؤں تو یہ میرے لیے مقام شرف ہے۔

یہاں ہے ظہور اور وہاں نور تیرا
مکاں میں بھی تو، لامکاں میں بھی تو ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کی عظمت اور اہمیت کا جو چرچا سن رکھا ہے اس کے بعد میری دلی خؤاہش ہے کہ میں آپﷺ کا دیدار کروں۔ میری دلی خواہش ہے کہ میں آپﷺ کا ذکر و چرچا بلند کروں۔ آپﷺ نور مجسم ہیں آپ ﷺ کا نور دنیا و عرش دونوں پر دیکھائی دیتا ہے۔ یہ آپﷺ کا معجزہ ہے کہ آپﷺ مکاں و لامکاں دونوں میں ہیں۔ آپﷺ نے معراج پر یہ ثابت کیا وہ مکاں و لامکاں دونوں میں ہیں موجود ہیں۔

جو بے داغ لالہ، جو بے خار گل ہے
وہ تو ہے، وہ تو ہے، وہ تو ہے، وہ تو ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر آپﷺ کی عظمت بیان کرتے ہیں کہ آپﷺسارے جہاں کے لیے رحمت بن کر بھیجے گئے ہیں۔ آپﷺ نے انسانیت کو حق سچ کا راستہ دیکھایا۔ مظلوموں کو سہارا دیا یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ آپﷺ کے اوصاف ہیں کہ آپﷺ مکہ میں صادق اور امین کے القبات سے پہچانے جاتے تھے۔ آپﷺ کا حسن بے مثال و بےنظیر تھا آپﷺ گویا پھول کے جیسے تھے وہ پھول جو سدا سے کھلا رہتا ہےجسے زوال نہیں ہوتا۔ وہ پھول جو مرجھاتا نہیں ہے جس پر کانٹے نہیں ہوتے۔ آپﷺ اسی واسطے دونوں جہانوں کے لیے ہدایت بن کر آئے۔

سوال ۱ : مختصر جواب دیں۔

(الف) صبا کہاں سے آتی ہے؟

جواب : صبا مدینے سے آتی ہے۔

(ب) پھولوں میں کس کی خوشبو ہے؟

جواب : پھولوں میں مدینے کی خوشبو ہے۔

(ج) شاعر کے دل میں کیا حسرت اور آرزو ہے؟

جواب : شاعر کے دل میں یہ حسرت اور آرزو ہے کہ وہ عمر بھر آقا کریمﷺ کی چوکھٹ پر رہے اور وہیں اسے موت آجائے۔

(د) شاعر اپنی حرمت و آبرو کس بات میں خیال کرتا ہے؟

جواب : شاعر اپنی حرمت و آبرو اس بات میں خیال کرتا ہے کہ آپﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ و احکامات پر عمل کرتے ہوئے رخصت ہوجائے۔

(ہ) طوطی و بلبل کس کا ذکر کرتے ہیں؟

جواب : طوطی اور بلبل نبی پاک ﷺ کا ذکر کرتے ہیں۔

سوال ۲ : اس نعت میں ردیف کیا ہے؟

جواب : اس نعت میں ردیف “ہے” ہے۔

سوال ۳ : اس نعت کے قافیے اپنی کاپی میں لکھیں۔

جواب : اس نعت میں لفظ “تو، بو، گفتگو، آرزو، چارسو، آبرو” قوافی ہیں۔

سوال ۴ : نعت کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

جواب : یہ نعت، شاعر امیر مینائی آقا کریمﷺ کے حضور میں محبت و عقیدت کے اظہار میں پیش کرتے ہیں۔ وہ اس نعت میں آقاﷺ کے شہر مدینے سے محبت کا ایک منفرد انداز اپناتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں دنیا کی رنگیناں اور خوبصورتی نبی کریمﷺ کی وجہ سے ہے پرندے ان کو سلام بھیجتے ہیں۔شاعر آپﷺ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے مرجانے کی خواہش کرتا ہے۔

سوال ۵ : لالے کے باغ اور گل کے بےخار ہونے سے کیا مراد ہے؟

جواب : لالے کے باغ اور گل کے بے خار ہونے سے مراد ہے کہ آپﷺ کی حیات مبارکہ گناہوں سے، خطاؤں سے پاک اور سراپا رحمت تھی۔

سوال ٦ : کالم (الف) میں دیئے گیے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ میں ملائیں۔

کالم (الف) کالم (ب)
صبا بو
طوطی بلبل
تذکرہ گفتگو
جیوں مروں
حسرت آرزو
یک سو چارسو
حرمت آبرو
ظہور نور
مکاں لامکاں

سوال ۷ : نیچے دیے گئے اشارات کی مدد سے نعت کا خلاصہ لکھیں۔

صبا کا مدینے سے آنا۔۔۔۔۔طوطی و بلبل اور رسول پاک ﷺ کا تذکرہ۔۔۔۔۔درِ رسولﷺ پر مرنے جینے کی آرزو ۔۔۔۔۔۔ہر طرف اسی کا جلوہ۔۔۔۔۔خاک مدینہ باعث حرمت۔۔۔۔مکاں و لامکاں میں اسی کا نور و ظہور۔۔۔۔بے داغ لالہ اور بے خار گل۔

خلاصہ :

یہ نعت، شاعر امیر مینائی آقا کریمﷺ کے حضور میں محبت و عقیدت کے اظہار میں پیش کرتے ہیں۔ وہ اس نعت میں آقاﷺ کے شہر مدینے سے محبت کا ایک منفرد انداز اپناتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں دنیا کی رنگیناں اور خوبصورتی نبی کریمﷺ کی وجہ سے ہے پرندے ان کو سلام بھیجتے ہیں۔شاعر آپﷺ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے مرجانے کی خواہش کرتا ہے۔ اس نظم میں شاعر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ہواؤں س کہتے ہیں کہ جب ہوائیں صبح کے وقت مدینے سے آتی ہیں تو میرا من سکون سے بھر جاتا ہے۔ وہ صبح کی ان ہواؤں سے کہتے ہیں کہ تم میرے نبی پاکﷺ کے شہر سے معطر ہو کر آئی ہو۔اس ہوا میں وہ پھولوں کی خوشبو محسوس کرتے ہیں یہ ان کی محبت کا تقاضا ہے وہ اپنے محبوب کے شہر کی ہوا کو بھی خوشبو سے تشبیہ دیتے ہیں۔ شاعر شہر مدینہ سے آنے والی ہواؤں اور آدمی دونوں کو خوش نصیب سمجھتا ہے کہ وہ اس شہر پاک سے آئیں ہیں جہاں روضہ رسولﷺ موجود ہے۔ شاعر شہر مدینہ سے اس قدر محبت حضوراطہر ﷺ کی وجہ سے کرتا ہے اور اسے وہاں کی ہوائیں بھی مسحور کن معلوم ہوتی ہیں۔ اس نظم میں شاعر آپﷺ کی عظمت بیان کرتے ہیں کہ آپﷺسارے جہاں کے لیے رحمت بن کر بھیجے گئے ہیں۔ آپﷺ نے انسانیت کو حق سچ کا راستہ دیکھایا۔ مظلوموں کو سہارا دیا یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ آپﷺ کے اوصاف ہیں کہ آپﷺ مکہ میں صادق اور امین کے القبات سے پہچانے جاتے تھے۔ آپﷺ کا حسن بے مثال و بےنظیر تھا آپﷺ گویا پھول کے جیسے تھے وہ پھول جو سدا سے کھلا رہتا ہےجسے زوال نہیں ہوتا۔ وہ پھول جو مرجھاتا نہیں ہے جس پر کانٹے نہیں ہوتے۔ آپﷺ اسی واسطے دونوں جہانوں کے لیے ہدایت بن کر آئے۔

سوال ۸ : اعراب کی مدد سے تلفظ واضح کریں۔

طَوُطِی و بُلَبُل۔
تَذَکِرَہُ۔
گُفُتگَوُ۔
حُرمَتُ۔
آبُروُ۔
ظُہَورُ۔
داغِ لَالَہ۔
خارِگُل۔