رخ و زلف پر جاں کھویا کیا

0

شاعر : خواجہ حیدر علی آتش۔

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام خواجہ حیدر علی آتش ہے۔

تعارفِ شاعر :

خواجہ حیدر علی آتش دلی میں پیدا ہوئے۔ شاعری میں آپ مصحفی کے شاگرد بنے تھے۔ بادشاہ آپ کو ازرہِ قدردانی اسی روپے ماہانہ دیتے تھے۔ ان کی شاعری میں زبان کالطف اور الفاظ کی چاشنی ہے۔ آپ کا کلام دیوانِ آتش کے نام سے موجود ہے۔

رخ و زلف پر جان کھویا کیا
اندھیرے اجالے میں رویا کیا

تشریح : اس شعر میں شاعر خواجہ حیدر علی آتش نے اپنے محبوب کے حسن کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے محبوب کا چہرہ دن کی روشنی ہے اور اس کی گھنی زلفیں رات کی تاریکی ہیں۔ شاعر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر محبوب کو مخاطب کرکے گویا ہوتے ہیں کہ اے محبوب تیرے حسن و جمال کو جب سے دیکھا ہے میرے دن کا سکون رات کو چین چھن گیا ہے۔ محبوب کی حسین زلفوں اور یہ پری چہرے نے شاعرکا دل بےقرار رکھا ہے۔

ہمیشہ لکھے وصف دندان یار
قلم اپنا موتی پرویا کیا

تشریح : اس شعر میں شاعر خواجہ حیدر علی آتش اپنے محبوب کے وصف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میرے محبوب سا کوئی اور نہیں ہے میرا محبوب حسین و جمیل ہے۔ محبوب کی خوبصورتی بیان کرتے ہوئے وہ اس کے دانتوں کو مرکز بناتے ہیں اور اس کے دانتوں کو موتی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ محبوب کے دانتوں کو موتیوں کی مالا اور سفیدی میں دودھ کے جیسا لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قلم سے اس تعریف کو لکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ میں نے محبوب کی تعریف نہیں کی بلکہ موتی پروئے ہیں۔

کہوں کیا ہوئی عمر کیوں کر بسر
میں جاگا کیا بخت سویا کیا

تشریح : اس شعر میں شاعر خواجہ حیدر علی آتش لکھتے ہیں کہ وہ کتنے بدنصیب ہیں ان کی زندگی مصائب سے گھری ہوئی ہے۔ شاعر کو دنیا کے دکھوں نے الجھا رکھا ہے وہ چین و سکون سے محروم ہو گئے۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنی خوش نصیبی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی مصروفیت میں الجھے رہے اور ان کی خوش نصیبی ان سے دور ہوتی گئی۔ وہ بدنصیبی کی لپیٹ میں لپٹے ہیں اور خوش نصیبی ان کے گھر سے جاتی رہی۔

رہی سبز بے فکر کشت سخن
نہ جوتا کیا میں نہ بویا کیا

تشریح : اس شعر میں خواجہ حیدر علی آتش نے کہا ہے کہ ان کی شاعری کی فصل بےفکر و آزاد اور ہمیشہ تر و تازہ رہی۔ انھوں نے محبوب کی خوبصورتی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کسان کبھی نہ ہل چلاتا ہے نہ بیج بوتا ہے اس کی وجہ سے خود روپودے اگ آتے ہیں۔ اس طرح ان کی شاعری بھی بلند پایہ اور عظیم ہے۔

برہمن کو باتوں کی حسرت رہی
خدا نے بتوں کو نہ گویا کیا

تشریح : اس شعر میں شاعر خواجہ حیدر علی آتش کہتے ہیں کہ برہمن کے من میں ایک ہی خواہش ہے کہ اس کے بت جنھیں وہ خدا کا رتبہ دیتا ہے وہ بولیں، انھیں قوت گویائی عطا ہو اور پھر برہمن ان سے خوب باتیں کرتے۔ ان کو اپنے حال کا بتائے ان کو اپنے دکھڑے سنائے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے بت کو بولنے کی قوت نہیں دی بت تو بت ہی رہتا ہے۔ اس لیے پنڈت کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ اسی طرح شاعر کی بھی یہ حالت ہے کہ اس کا محبوب اس سے بات نہیں کرتا اس لیے شاعر کی خواہش بھی پوری نہیں ہو پاتی۔ اس شعر میں بتوں کو بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ بت کو شاعر نے محبوب سے تشبیہ دی ہے۔

مزا غم کے کھانے کا جس کو پڑا
وہ اشکوں سے ہاتھ اپنے دھویا کیا

تشریح : آتش اس شعر میں کہتے ہیں کہ محبوب کی جدائی کا دکھ کم نہیں ہے۔ میری قسمت میں دکھ کی مقدار زیادہ ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس کی زندگی محبوب کو دیکھنے کے انتظار میں ہی گزر گئی۔ وہ محبوب سے ہمکلام ہونے کی سعادت اور اس کےچہرے کو دیکھ کر فیض یاب نہیں ہوا۔ وہ کہتا ہے کہ اسے اب اپنی قسمت سے کوئی امید نہیں ہے وہ محبوب کی بےرخی سے پریشان ہو گیا ہے، رنج و الم اٹھانا اس کی عادت بن گئی ہے۔ اس کی آنکھوں نے اس قدر آنسو بہائے ہیں کہ اب اس کے آنسو بھی خشک ہو گئے ہیں۔ شاعر اتنا زیادہ روتا ہے کہ اس کے آنسو اس قدر بہتے ہیں کہ وہ ان سے ہاتھ دھو لے۔

زنخداں سے آتشؔ محبت رہی
کنوئیں میں مجھے دل ڈبویا کیا

تشریح : شاعر خواجہ حیدر علی آتش اپنی غزل کے مقطع میں ہمکلامی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آتش تم نے اپنی جانب سے محبت کا حق ادا کیا، تم نے محبوب سے بہت محبت کی۔ محبوب کا حسن ہے کہ قابل دید جو وہ تعریف کے قابل ہے۔ شاعر کو محبوب کی ادائیں بہت بھاتی ہیں خاص کر جب وہ کھلکھلا کر ہنسے تو اس کی تھوڑی پر بنے والا گڑھا شاعر کو بہت بھاتا ہے۔ شاعر نے اپنے اظہارِ محبت میں محبوب کے تھوڑی کے گڑھے کو کنویں سے تشبیہ دی ہے۔ جس طرح کنوؤیں میں گرجانے والا واپس مشکل سے نکلتا ہے، اسی طرح شاعر بھی محبوب کی تھوڑی کے گڑھے میں گر گیا ہے جس کے سحر سے نکلنا اب ناممکن سا ہو گیا ہے۔

سوال ۱ : درج ذیل سوالات کے جواب لکھیں۔

(الف) شاعر نے ہمیشہ کس کے وصف لکھے ہیں؟

جواب : شاعر نے ہمیشہ اپنے محبوب کے دانتوں کے وصف لکھے ہیں۔

(ب) شاعر کی عمر کیسے بسر ہوئی ہے؟

جواب : شاعر کی عمر اس طرح بسر ہوئی کہ وہ پریشانیوں کی وجہ سے جاگتا رہا اور اس کی قسمت سوئی رہی۔

(ج) شاعر نے اپنی کشت سخن کے بارے میں کیا کہا ہے؟

جواب : شاعر نے اپنی کشتِ سخن کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ہمیشہ سر سبز و شاداب اور تر و تازہ رہتی ہے۔

(د) برہمن کو کس بات کی حسرت رہی؟

جواب : برہمن کو اس بات کی حسرت رہی کہ بت بولیں اور باتیں کریں تاکہ وہ ان سے باتیں کرسکے مگر خدا تعالیٰ نے بتوں کو قوت گویائی نہیں دی۔

(ہ) شاعر کا قلم کیا کام کرتا ہے؟

جواب : شاعر کا قلم موتی پروتا ہے یعنی محبوب کی خوبیاں اور حسن کو بیان کرتا ہے۔

سوال ۲ : مندرجہ ذیل تراکیب کے معنی لکھیں۔

وصف دندانِ یار محبوب کے خوبصورت دانوں کی خوبیاں۔
فکرِ کشِت سخن شاعری کی کھیتی یعنی شاعری کی دنیا کی فکر یا سوچ بچار۔

سوال ۳ : متن کو مد نظر رکھ کر کالم (الف) میں دیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔

اندھیرا اجالا
وصف دندان
قلم موتی
عمر بسر
جاگا سویا
فکر سخن
زنخداں کنواں
مزا غم

سوال ۴ : درجِ ذیل شعر میں موجود تشبیہ کے بارے میں اپنے استاد سے آگاہی حاصل کریں :

ہمیشہ لکھے وصف دندان یار
قلم اپنا موتی پرویا کیا

اس شعر میں شاعر خواجہ حیدر علی آتش اپنے محبوب کے دانتوں کو موتیوں سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

سوال ۵ : اعراب کی مدد سے تلفظ واضح کریں۔

وَصْف ، قَلَم ، عُمُر ، بَخْتُ ، کِشتِ ، سُخَن، برہمن، زنحداں۔

سوال ٦ : الفاظ کی معانی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں۔

وصف خوبی کشتی اس کے اوصاف میں نمایاں وصف ہے۔
بخت قسمت اس کے بلند تر بخت میں یہ کامیابی لکھی تھی۔
برہمن پنڈت برہمن کی باتوں کو محفل میں سب لوگ غور سے سنتے ہیں۔
زنحداں ٹھوڑی گلی ڈنڈا کھلتے ہوئے وہ گرگیا اور اس کی زنخداں پر زخم ہو گیا۔
آتش آگ آتش زدگی سے دیکھتے دیکھتے سارا گھر کوئلہ ہوگیا۔

سوال ۷ : درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔

اندھیرا اجالا
جاگنا سونا
غم خوشی
آگ پانی

سوال ۸ :د رج ذیل مرکبات کے نام لکھیں۔

رخ و زلف مرکب عطفی
دندان یار مرکب اضافی
کشت سخن مرکب اضافی

سوال ۹ : غزل کو غور سے پڑھیں اور درج ذیل کے جواب دیں۔

(الف) اس غزل کا مطلع کون سا ہے؟

جواب : غزل کا مطلع درج ذیل ہے۔
رخ و زلف پر جان کھویا کیا
اندھیرے اجالے میں رویا کیا

(ب) اس غزل کا مقطع کون سا ہے؟

جواب : غزل کا مقطع درج ذیل ہے :
زنخداں سے آتشؔ محبت رہی
کنوئیں میں مجھے دل ڈبویا کیا

(ج) اس غزل کی ردیف کیا ہے؟

جواب : اس غزل کی ردیف “کیا” ہے۔

(د) اس غزل میں موجود کوئی سے پانچ قوافی کی نشاندہی کریں۔

جواب : غزل میں موجود پانچ قوافی یہ ہیں :
ڈبویا۔ دھویا۔ گویا۔ بویا۔ سویا۔

سوال۱۰ : پانچویں شعر میں شاعر نے کیا استعارہ استعمال کیا ہے؟

برہمن کو باتوں کی حسرت رہی
خدا نے بتوں کو نہ گویا کیا

اس شعر میں “برہمن” عاشق کے لیے جبکہ “بت” محبوب کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔