مسلمانوں کا قدیم طرز تعلیم

0

سوال: اس سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

جواب: سبق ” مسلمانوں کا قدیم طرزِ تعلیم“ کے مصنف کا نام ”شبلی نعمانی“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”مقالاتِ شبلی“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

شبلی نعمانی یو-پی میں پیدا ہوئے۔ آپ اعلیٰ تعلیم اور وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ کالج سے وابستہ ہوگئے۔ علامہ شبلی نعمانی دبستان سرسید احمد خان کے اہم رکن تھے۔ ان کی علمی اور ادبی صلاحیتوں کو سر سید نے پہچان کر کم عمری میں ہی انھیں علی گڑھ کالج کی ذمہ داریاں دے دی تھیں۔ ان کی شخصت محض ایک روپ میں سامنے نہیں آتی بلکہ وہ عظیم مورخ، ماہر تعلیم، نقاد، شاعر ، مذہبی عالم اور محدث بن کر نمودار ہوئے۔ شبلی کا اسلوب بیان اتنا دلکش اور واضح ہے کہ جس کا اثر قاری باقاعدہ محسوس کرتا ہے۔ شبلی نعمانی کی اہم تصنیفات میں سیرت النبیﷺ، الفاروق، المامون، الغزالی، سیرت نعمان، سفرنامہ روم، سوانح مولانا روم، دستہ گل، شعرالعجم، کتب خانہ اسکندریہ شامل ہیں۔

سبق کا خلاصہ

اس سبق میں مصنف مسلمانوں کا قدیم طرزِ تعلیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قدیم زمانے کے مسلمانوں میں تعلیمی صورت بہت سادہ تھی۔ اس وقت اساتذہ کتب کا سہارا کم ہی لیتے بلکہ سیکھی سیکھائی باتیں جو کئیں وقتوں سے چلی آرہی ہیں ان کی تعلیم دیتے اور ایسے مسائل جن کا حل ہر عام انسان نہیں نکال سکتا وہ علوم سیکھائے جاتے تھے۔ اس دور میں زبانی سیکھانے کا رواج تھا، اور زیادہ علوم کا دارومدار روایات پر ہوتا تھا۔ اس وقت والدین یا بزرگ خود بچوں کی تعلیم و تربیت کرتے تھے، باقائدہ تعلیمی اداردوں کا رواج نہ تھا بلکہ وہ فلسفہ اور منطق جیسے علوم کو برا سمجھتے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ جب مسلمانوں میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوا تو درس گاہوں میں نحو ، معانی ، لغت ، فقہ ، اصولِ حدیث ، تاریخ ، اسماءالرجال ، طبقات اور ان کے متعلقات پڑھائے جاتے تھے۔ اور اس سلسلے کے شروع ہوتے ہی درسگاہیں بھی قائم کی گئیں تاکہ ان علوم کو باقاعدہ طور پر سیکھایا جاسکے۔

اس زمانے میں مسلمان علوم نقلی اور علوم عقلی دونوں حاصل کرتے تھے۔ علوم نقلی سے مراد وہ علوم ہیں جو ہم کہیں دیکھ کر پڑھتے ہیں، یعنی وہ علوم جو کتب بینی کے ذریعہ حاصل ہوں، جن کو پڑھنے کے لیے دماغ کا عمل دخل تقریباً نہ ہو۔ ان علوم میں حدیث ، تاریخ، اور روایات وغیرہ شامل ہیں۔ علوم عقلی وہ علوم ہیں جن کے لیے ہمیں سمجھ بوجھ کا استعمال کرنا پڑے، جہاں سارا کام اپنے ذہن کی مدد سے کیا جائے۔ یہ علوم انسان کو غوروفکر کی ترغیب دلاتے ہیں۔ ایسے علوم میں فلسفہ، کلام، سیاسیات وغیرہ شامل ہیں۔

اس زمانے میں مسلمانوں نے بہت سی فتوحات بھی اپنے نام کیں۔ مسلمانوں کی فتوحات اور ان کے عروج کے زمانے میں علوم و فنون کی حیرت انگیز ترقی کی وجہ یہ تھی کہ اسلام میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اس بات کو مد نظر رکھ کر انہوں نے تعلیم کو اپنا اہم مقصد بنا لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں مسلمان بہت سے ایسے علوم سیکھ گئے جن کو وہ اپنے دفاع کے لیے استعمال کر سکیں۔ ان علوم کی مدد سے وہ کئی چیزوں سے بہرور ہوئے اور ان سے استفاده حاصل کیا۔

مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں پہلا طریقہ یہ استعمال کیا جاتا کے اساتذہ جماعت میں موجود کسی اونچے مقام پر کھڑے ہو کر طلباء کو لیکچر دیتے تھے اور لیکچر میں اپنے منتخب موضوع کے اہم نکات پیش کرتے تھے اور آخر میں طلباء سے سوال و جواب کیے جاتے۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کے اساتذہ اپنی نگرانی میں طلباء کے درمیان بحث و مباحثہ کا مناظرہ رکھتے۔جس میں دونوں طلباء کسی موضوع پر اپنے اپنے نکات پیش کرتے تھے اس عمل میں استاد کی رہمنائی بھی لے سکتے تھے اور آخر میں استاد بچوں کو اس کا نتیجہ بتاتے تھے۔

مسلمانوں کے عروج کے دور میں ہرات ، نیشاپور ، مرو ، بخارا، فارس ، بغداد، مصر ، شام اور اندلس کے شہر قرطبہ کو علمی مراکز کا درجہ حاصل تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کے وہاں پر نہ صرف علوم کے ماہر اساتذہ بڑی تعداد میں موجود تھے، بلکہ وہاں پر مختلف جگہوں مثلاً مسجدوں کے صحن ، خانقاہوں کے حجرے اور علما کے ذاتی گھر بھی تعلیمی مرکز کے طور پر موجود تھے۔

مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں سلاطین ، اہل منصب اور اہل ثروت خود بھی علوم میں ماہر ہوتے تھے۔ اس لیے وہ علما اہمیت اور ان کی قدر سے واقف تھے اس لیے ان کی سرپرستی کرنے میں بھی پیش ہیش رہتے۔ وہ علماء کا خرچ اٹھاتے تھے اور اپنی جیب سے ان کی ضروریات کو پورا کرتے تھے۔ وہاں معمولی امیر آدمی کے پاس بھی ادیب اور عالم و فاضل لوگ موجود رہتے تھے۔

اس سبق کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔

سوال ۸ : ذیل کے الفاظ کو اپنے جملوں میں اس طرح استعمال کیجیے کہ ان کا مفہوم واضح ہو جائے۔ الفاظ جملے

نکتہ چیں : سارا کی نکتہ چیں عادت کی وجہ سے لوگ اُس کے ساتھ کام کرنا پسند نہیں کرتے۔
قبول عام : علی ظفر کا ملی نغمہ قبول عام ہوگیا۔
تمدن و معاشرت : ہمارے ملک کا تمدن و معاشرت بگاڑ کا شکار ہے۔
اہلِ منصب : سلطین میں اہلِ منصب اور اہلِ ثروت علوم میں ماہر ہوتے تھے۔

سوال : ذیل کے الفاظ پر اعراب لگائیے :

گروہ گُِروہ
امراء اُمَرا
مناظرہ مُناظِرَہْ
ممالک مُمَالِک
فقہ فِقْہ
بحث بَحْث
اسماء الرجال اَسْماءُالّرِجَال

سوال : مندرجہ ذیل میں سے متضاد اور مترادف مرکبات علیحدہ علیحدہ کر کے لکھیے۔

متضاد مرکبات مترادف مرکبات :
بلند و پست ، عزم و استقلال،
ہجر و وصال، حسن و جمال ،
تاب و تواں، عقل و شعور۔
ظاہر و باطن،
اول و آخر

سوال : دو دوستوں کی باہمی گفتگو مکالمے کی شکل میں لکھیے جن میں سے ایک معلم بننا چاہتا ہے اور دوسرا انجینئر۔

  • ریان : السلام علیکم ، کیسے ہو؟
  • احمد : وعلیکم السلام ، الحمدللہ تم سناؤ؟
  • ریان : میں بالکل ٹھیک۔ تم نے سوچ لیا کالج کے بعد کیا کرنا ہے؟
  • احمد : ہاں یار میں نے طے کرلیا کے میں استاد بننا چاہتا ہوں، اسی شعبے کے لیے اب ڈگری لوں گا۔ تم بتاؤ تم نے کیا سوچا ہے؟
  • ریان : میں تو انجینئرنگ یونی ورسٹی میں داخلہ لوں گا۔ یہ میرا اور والدین کا خواب ہے۔
  • احمد : ماشاءاللہ ، اللہ تمھیں کامیاب کریں۔
  • ریان : آمین ، ویسے تم کس مضموں کے استاد بنو گے؟
  • احمد : تمھیں تو معلوم ہے مجھے ریاضی مضمون بہت پسند ہے، میں چاہتا ہوں اسی مضمون کا استاد بنوں۔
  • ریان : ویسے تم ریاضی بہت اچھے طریقے سے اپنے طلبہ کو سمجھا لو گے۔
  • احمد : ہاہاہاہا شکریہ۔ مجھے امید ہے تم بھی انجینئر بن کر ہمارے ملک و قوم کا نام روشن کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کروگے۔
  • ریان : ان شاءللہ ، پھر ملاقات ہوتی ہے۔
  • احمد : اللہ حافظ۔
  • ریان : اللہ حافظ۔