دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟

0

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام مرزا غالب ہے۔

تعارفِ شاعر :

مرزا غالب کا پورا نام مرزا اسد اللہ بیگ خان تھا۔ غالب تخلص اور مرزا نوشہ عرفیت تھی۔ ندرتِ بیان ، تنوع اور رفعتِ خیال آپ کی شاعری کا خاصہ تھی۔ آپ کی دیگر کتابوں کے علاوہ دیوانِ غالب اور کلیاتِ غالب (فارسی) بہت مشہور ہیں۔ بہادر شاہ ظفر نے آپ کو اپنا استاد مقرر کیا اور دبیر الملک ، نظام جنگ اور نجم الدولہ کے خطابات سے نوازا۔

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

تشریح : اس شعر میں شاعر اپنے دل سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے میرے دل تجھے اتنا درد کیوں ہورہا ہے؟ آخر تجھے کیا ہوگیا ہے اور یہ جو تجھے اتنا درد ہورہا ہے اس درد کی کوئی دوا ہے بھی یا نہیں؟ اور اگر اس درد کی کوئی دوا ہے تو وہ کیا دوا ہے؟

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

تشریح : اس شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے میرے اللہ میں اپنے محبوب سے ملنے کے لیے بےچین ہوں اور ایک میرا محبوب ہے جو مجھ سے اور میری محبت سے بیزار نظر آتا ہے۔ اس شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ اے رب آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ میرا محبوب مجھے دے اس قدر بیزار ہوگیا ہے۔

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

تشریح : اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میرے پاس بھی زبان موجود ہے اور میں بھی تمھیں اپنے دل کی بات بتانا چاہتا ہوں۔ لیکن تم مجھ سے کبھی پوچھتے ہی نہیں کہ آخر میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے اور مجھے کس چیز کا غم کھائے جارہا ہے۔ اگر تم مجھ سے کبھی پوچھو کہ مجھے کس چیز کا غم ہے تو میں تمھیں بتاؤں کہ میں کیا چاہتا ہوں۔

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

تشریح : اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ مجھے اپنے محبوب سے وفا کی امید ہے حالانکہ میرا محبوب تو لفظ وفا سے ہی انجان ہے۔ میرے محبوب کو تو علم ہی نہیں کہ یہ وفا کیا ہوتی ہے تو آخر میں اپنے محبوب سے وفا کی امید کیسے کرسکتا ہوں؟

ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے

تشریح : اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارے ساتھ بھلائی ہو تو تمھیں چاہیے کہ تم باقی سب کے ساتھ بھلائی کے کام کرو۔ شاعر کہتے ہیں کہ ایک درویش بندے کی یہی صدا ہوتی ہے کہ اگر تم اپنے ساتھ اچھا کروانا چاہتے ہو تو دوسروں کے ساتھ بھی اچھا ہی کرو۔

جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

تشریح :اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب میں تم پر اپنی جان نثار کرتا ہوں۔ میں تمھارے لیے اپنی جان ببی قربان کرسکتا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ دعا کسے کہتے ہیں مجھے بس یہ پتہ ہے کہ میں تمھارے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔ اس شعر کے دوسرے معنی ہم حقیقی عشق میں بھی لےسکتے ہیں جہاں شاعر اللہ کو مخاطب کر کہ کہتے ہیں کہ اے میرے رب میں تیرے لیے اپنی جان قربان کر کے تجھ سے محبت کا ثبوت دے سکتا ہوں لیکن مجھے تجھ سے دعا مانگنا نہیں آتی ہے۔

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

تشریح : اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اگر کوئی چیز انسان کو مفت میں ملے تو اسے وہ چیز بری نہیں لگتی ہے۔ اگر انسان کو مفت میں بری چیزیں بھی ملے تو انسان اسے لے لیتا ہے اور کسی چیز کو نہیں چھوڑتا ہے۔ یہاں شاعر اپنے محبوب کو کہتے ہیں کہ میں تمھیں مفت میں مل رہا ہوں، اور لوگ تو ہر چیز کو مفت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو تم ہم سے کیوں گریزاں ہو، حالانکہ میں تمھیں مفت میں مل رہا ہوں۔

سوال ۱ : غالب کی غزل کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جواب لکھیں :

(الف) شاعر کو کن سے وفا کی امید ہے؟

جواب : شاعر کو اپنے محبوب سے وفا کی امید ہے۔

(ب) شاعر نے کسے ناداں کہا ہے؟

جواب : شاعر نے اپنے دل کو ناداں کہا ہے۔

(ج) کون مشتاق ہے اور کون بیزار؟

جواب : شاعر مشتاق ہیں اور شاعر کا محبوب بیزار ہے۔

(د) درویش کے لب پر کیا صدا ہے؟

جواب : ”ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا“ درویش کے لب پر یہ صدا ہے۔

(ہ) غالب نے مقطعے میں محبوب کو اپنی کیا قیمت بتائی ہے؟

جواب : غالب نے مقطعے میں محبوب کو اپنا آپ مفت میں دیا ہے۔

سوال ۲ : درج ذیل کے معنی لکھیں اور جملوں سے استعمال کریں۔

دل ناداں : نا سمجھ دل : اس کے دل ناداں کو محبت نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
مشتاق : شوق رکھنے والا : وہ کھانے پینے کی چیزوں کا مشتاق ہے۔
بیزار : ناراض : علی کو لگتا ہے احمد اس سے بیزار ہے۔
ماجرا : مسئلہ : جماعت میں ہوتے شور کی وجہ سے استاد کو ماجرا سمجھ نہیں آیا۔
مدعا : مقصد : میری پڑھائی کا مدعا علم حاصل کرنا ہے۔
صدا : آواز : آج میں نے فقیر کی صدا سنی۔

سوال ۳ : اس غزل کے دوسرے شعر میں “مشتاق” اور “بیزار” کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ معنوی اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایسے الفاظ متضاد الفاظ کہلاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد لکھیے۔

نادان چالاک
دن رات
نیکی بدی
موت زندگی
آزاد قید

سوال ۴ : مندرجہ ذیل الفاظ پر اعراب لگا کر تلفظ واضح کیجیے۔

مُشتاق،
مدّعا،
وَفا،
صَدا،
نِثَار۔

سوال ۵ : اس غزل میں جو قافیے آئے ہیں، انھیں ترتیب وار اپنی کاپی پر لکھیں۔

جواب : اس غزل میں مندرجہ ذیل قافیے آئے ہیں :
ہوا
دوا
ماجرا
مدعا
وفا
صدا
دعا
برا

سوال ٦ : کالم (الف) میں دیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔

درد دوا
مشتاق بیزار
منھ زبان
درویش صدا
جان نثار

سوال ۷ : متن کے مطابق درست لفظ کی مدد سے مصرعے مکمل کریں۔

(الف) (دل) نادان تجھے ہوا کیا ہے
(ب) مفت ہاتھ آئے تو (برا) کیا ہے
(ج) یا الہٰی ! یہ (ماجرا) کیا ہے
(د) ہم کو ان سے (وفا) کی ہے امید
(ہ) کاش پوچھو کہ (مدعا) کیا ہے
(و) جان تم پر (نثار) کرتا ہوں
(ز) اور درویش کی (صدا) کیا ہے

سوال ۸ : درج ذیل میں سے مذکر اور مؤنث الفاظ الگ الگ کریں

مذکر : دل
مدعا
ماجرا
مؤنث : صدا
جان
دعا