Advertisement

نظم

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرف غزل دل میں قندیل غم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں پہ مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نظم کا پس منظر:

یہ نظم فیض نے دوران اسیری روزنبرگ جوڑے کے خطوط پڑھنے کے بعد تحریر کی، جولیس روزنبرگ اور ایتھل روزنبرگ کو امریکی عدالت نے ٥٠ کی دہائی میں روس کے لیے جاسوسی کے الزام میں سزائے موت دی تھی۔ یہ دونوں کمیونسٹ تھے، عمومی رائے یہی تھی کہ انھیں محض کمیونزم کا حامی ہونے پر موت کا حقدار ٹھہرایا گیا، اس نظم کو ‘نغمہ مرگ’ بھی کہا جاتا ہے۔

Advertisement

نظم کا فنی جائزہ:

فیض ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے، لیکن ان کا فن محض نظریات کی تشہیر تک نہ تھا۔ وہ فن اور فکر کے اعلیٰ امتزاج کے حامی تھے اور یہی عنصر ان کی شاعری میں کھل کر سامنے آتا ہے۔
یہ نظم بھی فن شاعری کی جملہ خوبیوں سے مزین ہے، مصرعوں میں اک خاص غنائیت اور آہنگ ہے، نظم کا انداز رمزیہ ہے، استعاروں کا استعمال نہایت خوبی سے کیا گیا ہے اور ساری نظم سلیس اور رواں ہے۔

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشّاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جِن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

بالا اشعار اور مکمل نظم ہی غنائیت سے لبریز ہے۔

نظم کا فکری جائزہ:

فیض نے افکار و نظریات کو محبوب کے پیکر میں پیش کیا ہے، جب وہ کہتے ہیں

اپنا غم تھا گواہی تیرے حسن کی
دیکھ قائم رہے اِس گواہی پہ ہم

تو اس سے مراد مجسم محبوب نہیں، بلکہ اصول اور نظریات ہیں، جن کے لیے اصول پسندوں نے موت تو قبول کر لی مگر اصولوں سے پیچھے ہٹنا گوارا نہ کیا۔

Advertisement

اسی طرح جب وہ عشاق کے قافلوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو یہاں بھی مراد اپنے نظریات پر مر مٹنے والے ہیں۔

یہ نظم درحقیقت آفاقی نظم ہے، جب تک سرفروش اپنے نظریات پر قربان ہوتے رہیں گے فیض کی طرف سے انھیں خراجِ عقیدت بھی پہنچتا رہے گا اور منزل کی تلاش کے متمنی جہد مسلسل کا درس بھی پاتے رہیں گے۔