نظم شباب گریزاں کی تشریح

0

نظم

مئے تازہ و ناب حاصل نہیں ہے
تو کر لوں گا درد تہ جام پی کر گزارا!
مجھے ایک نو رس کلی نے
یہ طعنہ دیا تھا:
تری عمر کا یہ تقاضا ہے
تو ایسے پھولوں کا بھونرا بنے
جن میں دو چار دن کی مہک رہ گئی ہو
یہ سچ ہے وہ تصویر
جس کے سبھی رنگ دھندلا گئے ہوں
نئے رنگ اس میں بھرے کون لا کر
نئے رنگ لائے کہاں سے؟
ترے آسماں کا،
میں اک تازہ وارد ستارا سہی
جانتا ہوں کہ، اس آسماں پر
بہت چاند، سورج، ستارے ابھر کر
جو اک بار ڈوبے تو ابھرے نہیں ہیں
فراموش گاری کے نیلے افق سے،
انہی کی طرح میں بھی
نا تجربہ کار انساں کی ہمت سے آگے بڑھا ہوں،
جو آگے بڑھا ہوں،
تو دل میں ہوس یہ نہیں ہے
کہ اب سے ہزاروں برس بعد کی داستانوں میں
زندہ ہو اک بار پھر نام میرا!
یہ شام دل آویز تو اک بہانہ ہے،
اک کوشش ناتواں ہے
شباب گریزاں کو جاتے ہوئے روکنے کی
وگرنہ ہے کافی مجھے ایک پل کا سہارا،
ہوں اک تازہ وارد، مصیبت کا مارا
میں کر لوں گا درد تہ جام پی کر گزارا!

نظم کا تعارف

شباب گریزاں ن م راشد کے معروف و مشہور مجموعہ کلام ”ایران میں اجنبی“ سے ماخوذ ایک نظم ہے۔ ایران میں اجنبی کی اکثر نظموں میں جدید دنیا کی اور اس کے انسانوں کے تنازعات ، تضادات ، سماجی کشمکش اور تہذیبی بغاوت کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ان نظموں میں اکثر جگہ ایسا لگتا ہے کہ ن م راشد وسط ایشیائی اور مشرق وسطی کی عجمی ثقافت کو شعوری اور لاشعوری طور پر محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔

ن-م-راشد نے اپنے شعری کائنات کے منظرنامے کو بھی عربی اور وسط ایشیائی تہذیب و ثقافت کے شعری لغت سے ترتیب دیا ہے۔ ان خطوں کی تہذیبی، تاریخی، ثقافت اور ادبی امتیازات کا جادو ان کی اکثر نظموں کے سر پر چڑھ کر بولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راشد کی شاعری کے منظرنامے پر آشوب، انسانی انحطاط ،سماجی جبروتشدد، استحصال اور معاشرتی تبدیلیوں کا عمل نہایت تیزی سے ابھرتا ہے۔

تشریح

شباب گریزاں در اصل پوری انسانی زندگی کا آشوب ہے۔ راشد نے جس طرح اپنی دیگر نظموں میں مخصوص علامتوں کے ذریعے حقائق کی پردہ کشائی کی ہے وہ شباب گریزاں میں بھی نظر آتی ہے۔ در اصل شباب گریزاں عہد گزشتہ کی پر تپاک عیش وعشرت کی زندگی کے بعد زوال کا اشاریہ ہے۔ وہ شخصیتیں جن کے پاؤں اطلس و کمخواب پر سے اترتے نہیں تھے اب وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں اور ان کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔ وہ حضرات جن کے دسترخوان خانہ یغماں تھے اب وہ سوکھی روٹی کے ٹکڑوں کے لئے بھٹک رہے ہیں۔ جن کے میخانے خالص و بیش قیمتی شرابوں سے بھرے پڑے تھے اب انہیں ان شرابوں کی بوتلوں میں بچی ہوئی تلچھٹ اور جوٹھوں پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹھیک اس شعر کے مصداق:

اب تو اتنی بھی میسر نہیں میخانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں

ٹھیک اسی طرح اس دنیا سرائے فانی میں رہنے والے انسانوں کی بے ثباتی کی تشبیہ کلیوں اور پھولوں سے دی گئی ہے جن کی طبعی زندگی بہت ہی قلیل ہوتی ہے۔

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

ن م راشد کی نظم میں اس عمر رسیدہ دنیا اور اس میں رہنے بسنے والے کی مثال وقتی شادمانی اور دائمی زوال کا استعارہ ہے۔ زوال بھی ایسا کہ جسے دوبارہ فراوانی میں بدلا نہیں جاسکے، جہاں کے بسنے والوں کی زندگی کو ایک ایسے رنگ سے تشبیہ دی ہے جو دھندلا جائے تو اس میں پھر نئے رنگ نہیں بھرے جاسکتے۔ دنیا کی ہر شے فانی ہے۔ سورج، چاند ستارے زندگی اور روشنی کی علامت ہیں لیکن انسانی زندگی کو ایک بارموت اور زوال ہو جائے تو پھر اسے واپس نہیں لایا جاسکتا ٹھیک ویسے ہی سورج ، چاند ستاروں کے غروب ہونے کے بعد روشنی لوٹائی نہیں جاسکتی۔ بہت سے افراد فانی دنیا میں اپنا نام روشن کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا اور اس کی ساری چیزیں فانی ہیں۔ ناتجربہ کار انسان پھر بھی آگے بڑھنے اور یہاں قائم و دائم رہنے کی ہوس کرتے ہیں۔ لیکن ان کی کوشش عکس نا تمام ثابت ہوتی ہیں گویا:

دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے

اس فانی دنیا میں انسانی شباب بھی نا پائیدار ہے اور انسان ان کلیوں کی طرح ہے جو چند لمحوں کے لئے کھلتی ہیں اور اپنی خوشبو لٹا کر مرجھا جاتی ہیں۔ شباب گریزاں میں شباب کو روکنے کی ایک ناکام کوشش کی مثال پیش کی گئی ہے۔ ن م راشد کی نظم شباب گریزان در اصل ایران میں ان کے قیام کے دوران ان کے مشاہدات پر مبنی ایک علامتی نظم ہے جس میں انسانی زندگی کی عیش عشرت اور چند روزہ شباب کے ڈھلنے کے بعد رونما ہونے والے حالات کو پیش کرتی ہے۔

اس نظم میں انسانی درد تہہ جاں، نورس کلی ، چاند، سورج، ستارے سبھی علامتی اظہار کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ دراصل یہ علامتیں دنیائے فانی کی عیش و عشرت اور اس کی فنا وزوال کا اشاریہ ہیں۔ اس دنیا کے محروم و محکوم خطوں اور اس کے انسانوں کے متعلق وسیع تر آفاقی منظر پیش کرتی ہے۔ غرض کہ ن م راشد کی یہ شاہکار انظم جو ان کے مجموعہ کلام ایران میں اجنبی سے ماخوذ ہے ہمیں اس فانی دنیا پر غور وفکر کرنے کی تلقین کرتی ہے۔