ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے مختصر جائزہ

0

نظم

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرف غزل دل میں قندیل غم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں پہ مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نظم کا پس منظر:

یہ نظم فیض نے دوران اسیری روزنبرگ جوڑے کے خطوط پڑھنے کے بعد تحریر کی، جولیس روزنبرگ اور ایتھل روزنبرگ کو امریکی عدالت نے ٥٠ کی دہائی میں روس کے لیے جاسوسی کے الزام میں سزائے موت دی تھی۔ یہ دونوں کمیونسٹ تھے، عمومی رائے یہی تھی کہ انھیں محض کمیونزم کا حامی ہونے پر موت کا حقدار ٹھہرایا گیا، اس نظم کو ‘نغمہ مرگ’ بھی کہا جاتا ہے۔

نظم کا فنی جائزہ:

فیض ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے، لیکن ان کا فن محض نظریات کی تشہیر تک نہ تھا۔ وہ فن اور فکر کے اعلیٰ امتزاج کے حامی تھے اور یہی عنصر ان کی شاعری میں کھل کر سامنے آتا ہے۔
یہ نظم بھی فن شاعری کی جملہ خوبیوں سے مزین ہے، مصرعوں میں اک خاص غنائیت اور آہنگ ہے، نظم کا انداز رمزیہ ہے، استعاروں کا استعمال نہایت خوبی سے کیا گیا ہے اور ساری نظم سلیس اور رواں ہے۔

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشّاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جِن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

بالا اشعار اور مکمل نظم ہی غنائیت سے لبریز ہے۔

نظم کا فکری جائزہ:

فیض نے افکار و نظریات کو محبوب کے پیکر میں پیش کیا ہے، جب وہ کہتے ہیں

اپنا غم تھا گواہی تیرے حسن کی
دیکھ قائم رہے اِس گواہی پہ ہم

تو اس سے مراد مجسم محبوب نہیں، بلکہ اصول اور نظریات ہیں، جن کے لیے اصول پسندوں نے موت تو قبول کر لی مگر اصولوں سے پیچھے ہٹنا گوارا نہ کیا۔

اسی طرح جب وہ عشاق کے قافلوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو یہاں بھی مراد اپنے نظریات پر مر مٹنے والے ہیں۔

یہ نظم درحقیقت آفاقی نظم ہے، جب تک سرفروش اپنے نظریات پر قربان ہوتے رہیں گے فیض کی طرف سے انھیں خراجِ عقیدت بھی پہنچتا رہے گا اور منزل کی تلاش کے متمنی جہد مسلسل کا درس بھی پاتے رہیں گے۔