نظم سبا ویراں کی تشریح

0

نظم

سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں
سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن
سبا آلام کا انبار بے پایاں!
گیاہ و سبزہ و گل سے جہاں خالی
ہوائیں تشنۂ باراں،
طیور اس دشت کے منقار زیر پر
تو سرمہ ور گلو انساں
سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں!
سلیماں سر بہ زانو ترش رو، غمگیں، پریشاں مو
جہانگیری، جہانبانی، فقط طرارۂ آہو،
محبت شعلۂ پراں، ہوس بوئے گل بے بو
ز راز دہر کمتر گو!
سبا ویراں کہ اب تک اس زمیں پر ہیں
کسی عیار کے غارت گروں کے نقش پا باقی
سبا باقی، نہ مہروئے سبا باقی!
سلیماں سر بہ زانو
اب کہاں سے قاصد فرخندہ پے آئے؟
کہاں سے، کس سبو سے کاسۂ پیری میں مے آئے؟

نظم کا تعارف

”سبا ویراں“ ن-م-راشد کے تیسرے مجموعہ کلام ”ایران میں اجنبی“ میں شامل ایک معروف و مشہور نظم ہے۔ یہ ظلم انسان کی عصری زبوں حالی اور درماندگی کی تصویر پیش کرتی ہے۔ پوری نظم علامتی ہے۔ اردو شاعری میں بہت ہی کم ایسی نظمیں ملتی ہیں جن میں سباویراں کی طرح گہرا تصور پایا جاتا ہو۔

اس نظم میں فطری گہرائی کے ساتھ ساتھ صوتی دلکشی اور تاریخ و تہذیب کے عملی شعور کا حزنیہ آہنگ ملتا ہے۔ نظم کے دو کردار سلیمان اور سبا ایسی تاریخی علامتیں ہیں جو شان و شوکت اور عزت و عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔ راشد نے ان دونوں علامتوں کو اور ان کے زوال و بے بسی کو نظم کا موضوع بنایا ہے۔

نظم میں سلیمان دورِ جدید کے انسان کی علامت ہے جو بہر حال پریشان، بے بسی اور بے چارگی کا شکار ہے جب کہ نظم میں سبا موجودہ دنیا کی علامت ہے جو یکسر بنجر ہوگئی ہے اور میئتی زندگی میں انسانی تہذیب بہت حد تک اپنا حسن و جمال کھو چکی ہے۔ یہاں شاعر شان و شوکت کی ان نشانیوں کو بدترین حالت میں پہنچنے پر اظہار و افسوس کرتا ہے۔

تشریح

سلیماں سر بزانوں اور سبا ویراں
سلیمان سریز انوترش رو نجنگیں، پریشاں مو

سبا کی ویرانی اور بربادی پر قاری کا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ سبا کی زمیں کیوں ویران ہے۔ بہت غور کرنے پر اس مسیلے کا پتہ چلتا ہے کہ صرف سبا کی ویرانی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری بنی نوع انساں کی تباہی کا مسئلہ ہے۔

چوں کی سبا بھوت پریت اور شیاطین کا مسکن بن گئی ہے۔ یہاں اشارہ دنیا کی طرف ہے جس پر غیر مرئی طاقتوں نے قبضہ جمالیا ہے اور یہ دنیا نباتات و جمادات، پیڑ پودوں کی ہریالی سے یکسر خالی ہوتی جارہی ہے جہاں نہ گھاس ہے نہ سبزہ ہے نہ ہی پھول۔ یہاں ن-م- راشد نے قدرتی قوانین کی طرف اشارہ کیا ہے جب ہوا میں نمی ہوگی تو ہر جانب بارش ہوگی اور ہریالی ہوگی لیکن یہاں سبا کا منظر اتنا مایوس کن ہے کہ پرندے بھی اپنی چونچ کو اپنے پروں میں سمیٹے بیٹھے ہیں اور وہ آب و دانہ کے نشان تک سے محروم ہو گئے ہیں اور سبا پر بسنے والے سب سے بڑے ذی روح انسان کی حالت اتنی خراب ہو گئی ہے کہ ان کا دل غم واندوہ سے چور ہے اور آواز سرد ہوگئی ہے۔

بند کے پہلے دو حصوں میں ویرانی اور زوال کا منظر ہے اور تیسرے حصے میں سبا کی ویرانی اور زوال کی وجو ہات بیان کی گئیں ہیں کہ ان کی تباہی اور زوال کا سبب کوئی عیار اور غارت گر ہے جو سبا پر اپنے سائے کو پھیلائے ہوئے ہے۔

اصل میں نظم علامتی طور پر دوسری عالمی جنگ سے ہونے والی تباہ کاریوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بالخصوص ان مسلم ممالک اور ایران میں سماجی ، معاشی اور سیاسی انحطاط کی وجہ ان غیر ملکی استعماریت کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے اپنی شیطانی طاقت سے اچھے خاصے تہذیب یافتہ اور خوش حال ممالک کو بربادی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا اور اپنے نو آبادیاتی نظام کا حصہ بنالیا۔

نظم میں غارت گر نو آبادیاتی طاقتوں کی علامت ہے جس نے ایران کو برباد کر دیا۔ نظم کا آہنگ حزنیہ ہے جو معنوی علامت نگاری کا اعلی معیار پیش کرتا ہے۔ نظم کا آخری حصہ بھی مایوی اور غیر یقینی کا منظر پیش کرتا ہے۔ سلیمان سر بزانو ہے اور اس کے اندر حس و حرکت باقی نہیں کہ وہ ان ظالم طاقتوں کو روک سکے۔

اب کہاں سے قاصد فرخندہ پے آئے؟
کہاں سے، کس سبو سے کاسہ پیری میں مے آئے؟

نظم میں سبھی علامتیں، تمثیلیں اور تشبیہات و تلمیحات تاریخ کے مخصوص کرداروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کل ملا کر ن-م-راشد کی یہ نظم ہر نقطہ نظر سے مکمل ہے اور قاری پر اپنا گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ دنیا کی بے ثباتی ، خیر وشر اور تاریخ مختلف عہدوں پر غور وفکر کرنے کے لئے اکساتی بھی ہے۔