نظم ہاتھوں کا ترانہ مختصر جائزہ

0

بلند آہنگ اور خطیبانہ انداز علی سردار جعفری کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ جعفری اپنی شاعری میں رائے دہندہ کے طور پر نہیں، رائے ساز کے طور پر ابھر کر سامنے آ تے ہیں، اپنی بات پوری قوت اور شدت کے ساتھ پیش کرتے ہیں، چونکہ مارکسی فلسفے کے دلداہ تھے، اس لیے بیشتر نظمیں انقلابی نظریات پر مبنی ہیں، مزدور اور کسان ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں، ان کی اس نظم کا موضوع بھی محنت کش ہیں۔

جعفری اور محنت کش اس نظم میں اکائی ہیں۔ محنت کشوں کا گروہ سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی اہمیت کا احساس محض دلا نہیں رہا بلکہ منوا رہا ہے۔ جعفری اس گروہ کے مناد ہیں، وہ نظام اور سماج کو جھنجھوڑ تے ہیں کہ تمہیں میسر ہر سہولت انہی محنت کشوں کی بدولت ہے، تمہارے کارخانے ہوں یاتمہارے ایوان، تمہارے ملبوسات ہوں یا تمہارے گلدان، تمہارے جام و سبو، تمہاری عیش و عشرت، تمہارے باغوں کی ہریالی، تمہارے محل، ان محلوں کی زیبائش، ان میں چلنے والی برقی رو، فانوس ، قمقے، تمہارے آرام دہ بستر، تمہاری محفلوں کو رونق بخشنے والے ساز، تمہاری سماعتوں کو مسحور کرنے والی تھاپ یہ سب انہی محنت کشوں کے ہاتھوں کا کمال ہے۔

علی سردار جعفری کی یہ نظم ترقی پسند نظریات کی کڑی ہے۔ خیالات منظم اور پیش کردہ تصور میں توازن ہے۔ نظم میں ان کی مقصدیت فن کو بوجھل نہیں کرتی بلکہ فن کو توانائی فراہم کرتی ہے، مختصر فقروں نے نظم میں ایک خاص ترنم پیدا کر دیا ہے اور اسے ایک ترانے کے پیکر میں ڈھال دیا ہے، جعفری الفاظ کو برتنے کے سلیقے سے بخوبی واقف ہیں، ہر لفظ اپنے اندر معانی کا ایک جہان لیے ہوئے ہے، ان کی مہارت کا نمونہ ملاحظہ ہو:

اعجاز ہے یہ ان ہاتھوں کا، ریشم کو چھوئیں تو آنچل ہے
پتھر کو چھوئیں تو بت کر دیں، کالکھ کو چھوئیں تو کاجل ہے
مٹی کو چھوئیں تو سونا ہے، چاندی کو چھوئیں تو پائل ہے

جعفری کے ہاں دقیق اور پیچیدہ اصطلاحیں نہیں، اردو فارسی کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ قدیم و جدید کے حسین امتزاج کی صورت میں ان کے ہاں نظر آتا ہے، جعفری کی بعض نظموں پر اعتراض ہے کہ ان میں اشتراکیت شاعری پر حاوی ہے، لیکن ہاتھوں کا ترانہ میں انہوں نے انتہائی اعتدال برتا ہے، یہ بلاشبہ ان کی کامیاب نظموں میں سے ایک ہے۔