اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا

0

غزل

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
ذکرِ ا غیار سے ہوا معلوم
حرفِ ناصح برا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
اس نے نہ جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جُدا نہیں ہوتا
چارۂ دل سِوائے صبر نہیں
سو تمہارے سِوا نہیں ہوتا
کیوں سُنے عرض مضطرب مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا

تشریح

پہلا شعر

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا

غزل کے مطلعے میں شاعر محبوب کے حوالے سے کہتا ہے کہ وہ پے درپے ظلم کر رہا ہے اور ہم فریاد کیے جا رہے ہیں۔لیکن ہماری فریاد کا اس پر مطلق کوئی اثر ہوتا ہی نہیں ہے۔وہ برابر رنج و الم دیے جا رہا ہے۔کاش! اسے معلوم ہوتا کہ رنج کبھی مسرت افزا نہیں ہوتا اور وہ رنج دینا بند کر دیتا۔

دوسرا شعر

ذکرِ ا غیار سے ہوا معلوم
حرفِ ناصح برا نہیں ہوتا

اس شعر میں شاعر نے کہا ہے کہ نا صح جو نصیحت کرتا تھا کہ بُتوں سے دور رہو کہ یہ ہمیشہ تکلیف پہنچاتے ہیں اور دین و دنیا کو غارت کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں تو ہم کو ناگوار گزرتا تھا۔مگر آج جب ہمارے محبوب نے ہماری موجودگی میں ہمارے رقیب کا محبت بھرے لہجے کے ساتھ تذکرہ کیا تو ہمیں بہت تکلیف پہنچی اور احساس ہوا ناصح جو کہتا تھا وہ غلط نہیں تھا۔

تیسرا شعر

بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا

محبوب وعدہ کر کے مکر جاتا ہے۔بے وفائی گویا اس کا شیوہ ہے اور اس پر طرّہ یہ کہ ہم سے شکایت ہے کہ ہم اس کو بے وفا کیوں کہتے ہیں۔ اب چاہیے یہ کہ وہ اپنا شیوہ بدل لے۔نہ ہم اس کو بے وفا کہیں اور نہ شکایت ہو۔لیکن نہ وہ اپنا چلن بدلتا ہے اور نہ کبھی وعدہ وفا کرتا ہے۔

چوتھا شعر

اس نے نہ جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا

شاعر کہتا ہے کہ ہمارا دل بڑے کام کا تھا لیکن جب یہ محبوب پر آ گیا تو یہ ہمارے قابو میں نہیں رہا۔ اب معلوم نہیں کہ ہمارے محبوب نے ہمارا دل لے کر ایسا کر دیا ہے کہ یہ کسی کام کا ہی نہیں رہا ہے۔

پانچواں شعر

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب ہم نے تم کو پانے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کیے ہیں۔ہر طرح کی کوشش کی ہے لیکن تو کسی طرح بھی ہمارا نہیں ہو سکا۔ ورنہ اس مستحکم ارادے اور کوشش سے دنیا کا کون سا ایسا کام ہے جو ہو نہیں سکتا۔ گویا سب کچھ ممکن ہے لیکن تم کو اپنا بنانا ممکن نہیں ہے۔

ساتواں شعر

حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جُدا نہیں ہوتا

یہ فطری ہے کہ جہاں کہیں درد ہوگا انسان وہاں ہاتھ رکھ دے گا۔ اب محبوب کے ظلم و ستم سے دل کی حالت خراب ہوگئی ہے۔دل پھوڑے کی طرح پک گیا ہے۔ لہٰذا ہاتھ اس سے ہٹتا ہی نہیں ہے۔ اب شاعر کہتا ہے کہ میں اپنے یار،اپنے محبوب کو خط میں اپنے دل کی حالت لکھتا اور شاید وہ کچھ رحم کرتا ہے مگر کیا کروں کہ درد کی شدت ہے اور ہاتھ اس کے ساتھ ایسا لگا ہے کہ ہٹتا ہی نہیں۔

آٹھواں شعر

چارۂ دل سِوائے صبر نہیں
سو تمہارے سِوا نہیں ہوتا

شاعر کہتا ہے کہ ہمارے اس دل کا علاج خبر کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور پھر محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے یہ تمہاری جُدائی میں اس دل کو صبر کیوں کر میسر ہو سکتا لہٰذا اس کا علاج کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟

نواں شعر

کیوں سُنے عرض مضطرب مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا

غزل کے مقطعے میں شاعر نے نہایت عُمدہ بات کہہ دی ہے۔ خدا کی خصوصیت میں ایک یہ ہے کہ وہ رحیم ہے اب شاعر کہتا ہے کہ اے مومن محبوب بے قرار عشق کی درخواست کیوں سُنے؟ کہ اس کا شیوہ تو ظلم کرنا ہے اور پھر محبوب آخر محبوب ہی تو ہے۔ وہ کوئی خدا تو نہیں جو سب کی سنتا ہے۔