Advertisement
Advertisement

شاعر : مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی
ماخوذاز : کلیاتِ اسماعیل میرٹھی

Advertisement

تعارفِ نظم

اس نظم کے شاعر کا نام مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی ہے۔ یہ نظم کلیاتِ اسماعیل میرٹھی سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعر

مولوی اسمعیل ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ اسمعیل میرٹھی کا شمار بچوں کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔ آپ کی شاعری، بیان کی سادگی اور زبان کی پاکیزگی کا عمدہ نمونہ ہے۔ آپ کا سارا کلام ”کلیاتِ اسمٰعیل“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔

Advertisement

تشریح

خدایا نہیں کوئی تیرے سوا
اگر تو نہ ہوتا تو ہوتا ہی کیا

اس شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا اقرار کررہے ہیں۔ شاعر لکھتے ہیں کہ اگر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نہ ہوتا تو اس دنیا میں کچھ بھی نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تب سے ہے جب کوئی بھی نہ تھا اور تب تک رہے گی جب کچھ بھی نہیں بچے گا۔

Advertisement
تصور تری ذات کا ہے محال
کسے یہ سکت اور کہاں یہ مجال

اس شعر میں شاعر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ کسی بھی مخلوق کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا تصور بھی کرسکے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے۔ کسی بھی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا تصور بھی کرسکے۔

بنائی ہے تو نے یہ کیا خوب چھت
کہ ہے سارے عالم کی جس میں کھپت

اس شعر میں شاعر آسمان کا ذکر کررہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا خوب چھت بنائی ہے جو زمین کی ہر شے کو ڈھانپے ہوئے ہے۔ یہ چھت بغیر کسی سہارے کے کھڑی ہے اور پوری مخلوق کو سایہ دیتی ہے۔ یہ آسمان اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔

Advertisement
یہ تارے جو ہیں آتے جاتے ہوئے
چمکتے ہوئے جگمگاتے ہوئے

اس شعر میں شاعر آسمان پر چمکتے ستاروں کا ذکر کررہے ہیں۔ ان میں سے کچھ ستارے زمین سے بڑے بھی ہوتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں وہ روشنی مہیا کرتے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ یہ آتے جاتے ستارے بھی اللہ تعالیٰ کی شان کا ایک ثبوت ہیں۔ جو بر وقت بغیر کسی ایندھن کے چمکتے رہتے ہیں۔

چراغ ایسے روشن جو بن تیل ہیں
یہ تیری ہی قدرت کے سب کھیل ہیں

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ آسمان پر چمکتے ستارے بغیر کسی تیل کے ہر وقت روشن رہتے ہیں تو یہ سب اللہ کی قدرت کا ہی کھیل ہے۔ آسمان پر چمکتے اور روشنی مہیا کرتے یہ ستارے اللہ تعالیٰ کی ہی تخلیق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ لعل و گہر ہیں جو بکھرے پڑے
زمین سے بھی ہیں ان میں اکثر بڑے

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ستارے ہیرے جواہرات کی طرح آسمان پر جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر تارے زمین سے بھی بڑے ہیں لیکن ہمیں بہت چھوٹے چھوٹے نظر آتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی ہی قدرت ہے۔

یہ قائم ہیں تیری ہی تقدیر سے
بندھے ہیں بہم سخت زنجیر سے

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ سورج ، چاند، تارے اور تمام سیارے آپس میں ایک کشش سے بندھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے دور رہ کر اپنے اپنے مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں اور دنیا کا نظام صدیوں سے یوں ہی چلا آرہا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی ہی تقدیر ہے جس کی وجہ سے آج تک یہ سب کچھ قائم و دائم ہے۔

Advertisement
وہ زنجیر کیا ہے کششِ باہمی
نہ اس میں خلل ہو نہ بیشی کمی

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ تمام تارے اور سیارے آپس میں ایک دوسرے کی کشش سے جڑے ہوئے ہیں اور اس کشش میں نہ کبھی کمی ہوئی ہے نہ ہی کچھ اور ہوا ہے۔

ہے ان سب کا آئین ایجاد ایک
ہنر ایک ہے اور استاد ایک

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ دنیا و آسمان میں موجود ہر چیز کا ایک ہی اصول ہے کیوں کہ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں۔ ایک ہی استاد کے ہاتھوں سے بنی ہوئی یہ تمام چیزیں مختلف ہیں اور اللہ کی قدرت کا نمونہ ہیں۔

اس نظم کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔

سوال نمبر 2 : اس حمد کا مرکزی خیال بیان کیجیے۔

یہ نظم ہماری درسی کتاب سے لی گئی ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی ہے۔ یہ نظم کلیاتِ اسماعیل میرٹھی سے ماخوذ کی گئی ہے۔

Advertisement

مرکزی خیال

اس حمد میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کررہے ہیں۔ وہ اس نظم میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور ان کی قدرت کا ذکر کررہے ہیں۔ اسمعٰیل میرٹھی نے اس نظم میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے ہمیشہ سے ہونے اور ہمیشہ تک رہنے کا اقرار کیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا ذکر کرتے ہوئے ستاروں کی مثال بھی دیتے ہیں اور چاند کی مثال بھی دیتے ہیں۔ غرض کہ اس دنیا اور اس پوری کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ثبوت ہے اور شے کا خالق ہمارا رب ہے۔

سوال نمبر 3 : خالی جگہوں میں مناسب لفظ لکھیے۔

  • (الف) بندھے ہیں (بہم) سخت زنجیر سے۔
  • (ب) وہ (زنجیر) کیا ہے؟ کششِ باہمی۔

(ج) بنائی ہے تو نے یہ کیا (خوب) چھت۔

  • (د) یہ تیری ہی (قدرت) کے سب کھیل ہیں۔
  • (و) تصور تری (ذات) کا ہے محال۔

سوال نمبر 4 : جوابات دیجیے :

(الف) اس حمد میں کُل کتنے مصرعے اور کتنے شعر ہیں؟

جواب : اس حمد میں کُل اٹھارا مصرعے اور نو اشعار ہیں۔

Advertisement

(ب) کسی اور نظم کا ایک شعر لکھ کر مصرع اولیٰ اور مصرع ثانی کی نشان دہی کیجیے۔

خلق کے سرور ، شافع محشر ﷺ (مصرع اولیٰ)
مرسل داور ، خاص پیمبر ﷺ (مصرع ثانی)

Advertisement

سوال نمبر 5 : درج ذیل سوالات میں سے درست جواب پر (درست) کا نشان لگائیے :

(الف) ایک شعر میں مصرعے ہوتے ہیں :

۱) دو ✔
۲) چار
۳) چھ
۴) آٹھ

(ب) حمد کے چوتھے شعر میں بن تیل کے چراغوں سے مراد ہے :

۱) پھول
۲) ستارے ✔
۳) بلب
۴) ہیرے

(ج) اس دنیا کی ہر چیز قائم ہے :

Advertisement

۱) تدبیر سے
۲) تکبیر سے
۳) زنجیر سے
۴) تقدیر سے ✔

(د) اس نظم میں لفظ آئین کا مطلب ہے :

۱) طریقہ
۲) قانون
۳) ضابطہ
۴) اصول ✔

Advertisement

(ہ) کائنات میں سب کھیل ہیں :

۱) ہمت کے
۲) قدرت کے ✔
۳) عزت کے
۴) فرصت کے

Advertisement