ہونٹوں پہ کبھی اُن کے مرا نام ہی آئے تشریح

0

ادا جعفری کی غزل گوئی پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تعارفِ غزل

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کی شاعرہ کا نام ادا جعفری ہے۔ یہ غزل شہر درد سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعرہ

ادا جعفری کا اصل نام عزیز جہاں تھا۔ آپ نے نظم و نثر دونوں صنفوں میں اظہارِ خیال کیا مگر شاعری وجہ شہرت بنی۔ انھوں نے آزاد نظمیں بھی کہیں اور جاپانی صنف سخن ہائیکو میں بھی نام کمایا، مگر وجہ کمال غزل ہے۔ آپ نے متعدد قومی و بین الاقوامی اعزازات و تمغات حاصل کیے، جن میں قومی تمغا برائے حسن کارکردگی بھی شامل ہے۔ آپ کے ادبی سرمائے میں ”ساز ڈھونڈتی رہی، غزل نما، ساز سخن بہانہ ہے، حرف شناسائی ، غزالاں تم تو واقف ہو، شہردرد، سفر باقی اور موسم موسم“ جیسے مشہور شعری مجموعے ہیں۔

ہونٹوں پہ کبھی اُن کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی ،برسرِ الزام ہی آئے

اس شعر میں شاعرہ اپنے محبوب کے بارے میں بات کررہی ہیں وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے محبوب کے منہ سے اپنا نام سننے کے لیے ترس گئی ہوں۔ شاعرہ چاہتی ہیں کہ ان کا محبوب ان کا نام اپنے لبوں سے ادا کرے، اگر وہ محبت سے ان کا نام ادا نہیں کرسکتا تو ان پر الزام لگانے کے خاطر ، ان سے نفرت کا اظہار کرنے کے لیے ہی اپنے منہ سے ان کا نام لے۔ وہ چاہتی ہیں وجہ کچھ بھی ہو بس ان کا محبوب ان کا نام لیتا رہے۔

حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غُنچے
خوش بو کی زبانی تِرا پیغام ہی آئے

اس شعر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ میں حیران و پریشان ہوں، میرے لب خاموش و جامد ہیں اور میرا دل پریشانیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تمھارا کوئی پیغام مجھ تک پہنچے۔ اور اگر تم خود اپنا پیغام مجھ تک نہیں پہنچا سکتے تو کم از کم خوش بو کی زبانی ہی تمھارا کوئی پیغام مجھے ملے تاکہ میں تمھیں اپنے محبوب کو اپنے آس پاس محسوس کرسکوں۔

کیا راہ بدلنے کا گِلہ ہم سفروں سے
جس رَہ سے چلے تیرے دروبام ہی آئے

اس شعر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ ہم اپنے ہم سفروں سے راہ بدلنے کا کیا گلہ کریں، ہم جس بھی راہ پر چل کر آتے ہیں ہماری منزل تمھارے گھر کا دروازہ ہی ہوتی ہے۔ لوگ ہمیں پاگل سمجھتے ہیں لیکن ہماری ہر منزل اپنے محبوب پر ہی آ کر تمام ہوتی ہے اور اس لیے اب ہم اس راستے پر تنہا بھی سفر کرسکتے ہیں۔

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کُوئے تمنّا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے

اس شعر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ اب ہم اپنے محبوب کی جانب سے جواب ملنے کی امید کرتے کرتے تھک چکے ہیں اور اب ہم تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں۔ ہم اب ناامید ہوچکے ہیں اور اب ہمارا یہ ناکامی کا جذبہ ہی ہمارے پاس بچا ہے جس کے ذریعے ہم اپنی باقی کی زندگی گزاریں گے۔

باقی نہ رہے ساکھ ادا دشت جنوں کی
دل میں اگر اندیشہ ٔ انجام ہی آئے

اس غزل کے آخری شعر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ ہماری حالت دیکھ کر سب ہمیں کہتے ہیں کہ تمھیں محبت کا انجام پہلے سے سوچ لینا چاہیے تھا لیکن اگر میں محبت کا انجام پہلے سے سوچتی یا میرے دل میں انجام کا کوئی خیال بھی آتا تو پھر میری محبت کی وہ عزت باقی نہ بچتی۔ کیونکہ محبت تو بس کرنے کا نام ہے اور اس کے انجام کے بارے میں سوچنا محبت کرنے والوں کو زیب نہیں دیتا ہے۔

سوال: ذیل کے الفاظ و تراکیب کا مفہوم بیان کیجیے :

  • حیران : پریشان
  • لب بستہ : خاموش
  • دل گیر : رنجیدہ
  • غنچے : پھولوں کا گلدستہ
  • ہم سفر : سفر کا ساتھی
  • پیغام : پیام
  • در و بام : گھر
  • ساکھ : اعتبار
  • دشت جنوں : بےخودی کا میدان

سوال: ان اشعار کا مطلب بیان کیجیے :

”ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی، برسرِ الزام ہی آئے“

جواب: اس شعر میں شاعرہ اپنے محبوب کے بارے میں بات کررہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے محبوب کے منہ سے اپنا نام سننے کے لیے ترس گئی ہوں۔ شاعرہ چاہتی ہیں کہ ان کا محبوب ان کا نام اپنے لبوں سے ادا کرے، اگر وہ محبت سے ان کا نام ادا نہیں کرسکتا تو ان پر الزام لگانے کے خاطر ، ان سے نفرت کا اظہار کرنے کے لیے ہی اپنے منہ سے ان کا نام لے۔ وہ چاہتی ہیں وجہ کچھ بھی ہو بس ان کا محبوب ان کا نام لیتا رہے۔

”کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رَہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے“

تشریح : اس شعر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ ہم اپنے ہم سفروں سے راہ بدلنے کا کیا گلہ کریں، ہم جس بھی راہ پر چل کر آتے ہیں ہماری منزل تمھارے گھر کا دروازہ ہی ہوتی ہے۔ لوگ ہمیں پاگل سمجھتے ہیں لیکن ہماری ہر منزل اپنے محبوب پر ہی آ کر تمام ہوتی ہے اور اس لیے اب ہم اس راستے پر تنہا بھی سفر کرسکتے ہیں۔

سوال: اس نظم میں قافیہ، ردیف، تخلص، مطلع اور مقطع کی نشان دہی کیجیے۔

جواب : قافیہ : نام ، الزام ، پیغام ، در و بام ، ناکام ، انجام
ردیف : ہی آئے
تخلص : ادا
مطلع :
ہونٹوں پہ کبھی اُن کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی ،برسرِ الزام ہی آئے

مقطع :
باقی نہ رہے ساکھ ادا دشت جنوں کی
دل میں اگر اندیشہ ٔ انجام ہی آئے

سوال: اس غزل کا کون سا شعر آپ کو زیادہ پسند آیا اور کیوں؟ وجہ لکھیے۔

جواب : اس غزل کا پہلا شعر مجھے پسند آیا ہے کیوں کہ اس شعر میں شاعرہ اپنے محبوب کے بارے میں بات کررہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے محبوب کے منہ سے اپنا نام سننے کے لیے ترس گئی ہوں۔ شاعرہ چاہتی ہیں کہ ان کا محبوب ان کا نام اپنے لبوں سے ادا کرے، اگر وہ محبت سے ان کا نام ادا نہیں کرسکتا تو ان پر الزام لگانے کے خاطر ، ان سے نفرت کا اظہار کرنے کے لیے ہی اپنے منہ سے ان کا نام لے۔ وہ چاہتی ہیں وجہ کچھ بھی ہو بس ان کا محبوب ان کا نام لیتا رہے۔

سوال نمبر 2 : درج ذیل جوابات میں سے درست جواب پر (درست) کا نشان لگائیے :

(الف) شاعرہ کے نزدیک اس کا نام آئے :

  • (۱)کتاب میں
  • (۲)ٹی وی پر
  • (۳)ہونٹوں پر ✔
  • (۴)اخبار میں

(ب) شاعرہ نے اپنے شعر میں گلہ کیا ہے :

  • (۱)دنیا کے لوگوں کا
  • (۲)دوستوں کا
  • (۳)شاعروں کا
  • (۴)ہم سفروں کا ✔

(ج) اس غزل کے مقطعے میں شاعرہ نے اپنا تخلص استعمال کیا ہے :

  • (۱)انجام
  • (۲)جنوں
  • (۳)ادا ✔
  • (۴)ساکھ

(د) اس غزل کی ردیف ہے :

  • (۱)نام
  • (۲)ادا
  • (۳)در و بام
  • (۴)ہی آئے ✔

(ہ) خوش بو کی زبانی ترا :

  • (۱)انعام ہی آئے
  • (۲)نام ہی آئے
  • (۳)پیغام ہی آئے ✔
  • (۴)پیام ہی آئے

سوال نمبر 3 : درج ذیل الفاظ کی جمع لکھیے :

الفاظ جمع
پیغام پیغامات
جذبہ جذبات
الزام الزامات
انجام انجامات