تنقید کے معنی اور اقسام

0

ٹی ایس ایلیٹ کے بقول ”تنقید ہماری زندگی کے لئے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس۔“
عام طور پر لوگ تنقید سے اعتراض مراد لیتے ہیں اس لئے تنقید سے گبھراتے ہیں لیکن تنقید کی مختلف تعریفیں ہیں جن سے اس عمل کو اعتراض کے حد تک محدود کرنے والوں کا خوف جاتا رہتا ہے اور وہ تنقید کے لئے امادہ ہو جاتے ہیں۔

تنقید کے مختلف مطالب بیان کئے گئے ہیں یعنی چھان پھٹک کرنا، پرکھنا، اچھے کو برے سے الگ کرنا وغیرہ۔ اس کے مختلف دبستان ہیں، جن کا ذکر آرہا ہے، ہر دبستان کا اپنا نقطہ نظر ہے اور اس کے مطابق وہ تنقید کی تعریف کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا تنقید صرف کسی فن پارے تک محدود ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں بلکہ پورے سسٹم یا تھیوری پر ہوسکتی ہے۔

اردو میں جدید تنقید کا آغاز حالی کے مقدمہ شعروشاعری (1893ء) سے کیا جاتا ہے۔ تنقید اور تخلیق میں گہرا رشتہ ہے لیکن تنقید تخلیق کے پیچھے ہی نظر آتی ہے۔ تخلیق کرتے وقت ساتھ ساتھ تنقید بھی ہوتی رہتی ہے۔ اچھے ناقدین نقاد کے ساتھ ساتھ تخلیقی فن کار بھی ہوتے ہیں۔ محمد حسین آزاد اور علامہ اقبال کے ایسے مسودات ملے ہیں جن میں انھوں نے اسلوب کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنانے کی کوشش میں خوب کانٹ چھانٹ کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق و تنقید ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ارسطو سے تنقید کا آغاز ہوا ہے لیکن ابن حنیف کے مقالہ ’’عالمی ادب میں تنقید کی اولین مثال‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ ارسطو سے بھی ڈیڑھ ہزار برس قبل جس ادبی تخلیق سے تنقیدی شعور کی نشان دہی ہوتی ہے اس کا خالق خاخپ ادر اسنوب تھا۔ بیشتر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ خاخپ ادر اسنوب کی یہ تصنیف فراعنہ مصر کے بارھویں خاندان کے زمانے میں تخلیق کی گئی۔

اردو میں جدید تنقید کا آغاز حالی کے مقدمہ شعروشاعری (1893ء) سے کیا جاتا ہے۔ ان کے بعد فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، مجنون گورکھپوری، احتشام حسین، علی سردار جعفری، عزیز احمد، محمد حسن عسکری، سلیم احمد، عابد علی عابد، محمد احسن فاروقی ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے نقاد بھی ہیں۔ اسی طرح فیض، انتظار حسین، شمس الرحمان فاروقی، ساقی فاروقی،آغا سہیل، جیلانی کامران، انیس ناگی، سجاد باقر رضوی، عرش صدیقی، احمد ندیم قاسمی، وحید قریشی، مشفق خواجہ اور سید قدرت نقوی ادیب، شاعر اور نقاد ہیں۔

اگر چہ اقبال نے تنقید پر باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن ان کی شاعری، خطوط اور مقالات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اعلی تنقیدی شعور کے مالک تھے۔ تصورات نقد کی شیرازہ بندی مختلف وجوہات کی بنا پر کی جاتی ہے۔ کسی نظام فکر سے وابستہ افراد اور ان کی ذہنی کاوشوں کو “دبستان” کہتے ہیں۔ دبستان کی تشکیل کے دو اسباب بہت اہم ہیں۔ اول کسی علمی نظریہ کا اثر، دوسرے کسی مسلم ادبی نظریہ یا ادبی تحریک کے خلاف رد عمل کا اظہار، جو انفرادی سطح سے بلند ہو کر بعد ازاں باقاعدہ نظریہ یا تحریک کا روپ دھار لیتا ہے۔

عمرانی تنقید Sociological Criticism

تخلیقات میں عصری، شعور اور سماجی محرکات کی تلاش عمرانی تنقید کا کام ہے۔ ولبر سکاٹ کے مطابق ویچو عمرانی تنقید کی اولین مثال کے طور پرلیا جاتا ہے۔ اردو میں مولانا حالی پہلے نقاد ہیں جس نے ادب اور سوسائٹی کے تعلق پر بحث کی ہے۔ عصری رجحانات کے مطالعہ کے لئے اردو میں دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوں کی مثال بے حد نمایاں ہے۔ ان دونوں دبستانوں کے مخصوص رجحانات ان میں قطبین کا باب پیدا کردیتی ہیں۔

آل احمد سرور کے مطابق ’’حالی کے بعد اردو میں کوئی ایسا نقاد نہیں ہے جو ٹی ایس ایلیٹ کے الفاظ میں آفاقی ذہن رکھتا ہو‘‘۔عمرانی نقاد کے دو اہم فریضے ہیں۔ وہ ایک مخصوص سماج اور معاشرہ سے وابستہ رجحانات کے تجزیہ سے ایک خاص عہد کے ذہنی پس منظر کا تعین کرتا ہے۔ پھر ان کی روشنی میں شاعر کے کلام کا جائزہ لے کر اس امر کا تعین کرنا ہوگا کہ ان سماجی عناصر نے اس کے کلام میں کہاں تک فروغ پایا ہے۔
اردو میں ابن الوقت ، امراؤ جان ادا، ٹیڑھی لکیر، اداس نسلیں، آنگن، زمین، بستی، تذکرہ، آگے سمندر ہے وغیرہ ناول وسیع تر عمرانی تناظر کے ناول ہیں۔

نفسیاتی تنقید Psychological Criticism

اس کو آپ تخلیق اور لاشعوری محرکات کی طلسم کاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ نفسیاتی تنقید کی اساس فرائڈ کا نظریہ لا شعور بنا پھر اس میں ایڈلر اور ژونگ کی تعلیمات سے مزید گہرائی پیدا کی گئی۔ اس تنقید میں اصناف ادب کے نفسیاتی محرکات کا سراغ، تخلیق کار کی شخصیت کی نفسی اساس کی دریافت اور نفسیاتی اصولوں کے سیاق وسباق میں مخصوص تخلیقی کاوشوں کی تشریح و توضیح اور پھر ان کے ادبی مرتبہ کا تعین شامل ہیں۔ ایچ سمرول نے ’’میڈنیس ان شیکیسپئر ٹریجڈی‘‘ میں شیکسپیئر کی یوں تشخیص کی کہ وہ مینک ڈیپریسیو تھا۔ یہ نیم دیوانگی کی وہ قسم ہے جس میں مریض پر خوشی اور پژمردگی کے دورے سے پڑتے ہیں۔ ایک وقت ضرورت سے زیادہ خوش تو دوسرے وقت غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ملتا ہے۔ بہت سے شعراء یوں غم اور خوشی کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتے رہتے ہیں۔ اس نے سوال کیا کہ ’’کیا شیکسپیئر بھی ایسی ہی کیفیات سے دوچار تھا؟‘‘ اور اپنے استدلال سے اس بات کا جواب بھی دیا کہ جب ہم فلسٹاف اور میکبتھ کا مطالعہ کریں تو اس ضمن میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں رہتا‘‘۔

اس تنقید نے تو بڑے بڑے تخلیق کاروں کی ابنارملٹی، جنسی بے راہ روی، خانگی ناچاقی، نشہ، جرم، ہم جنس پرستی، ذہنی امراض، افیونی ہونے وغیرہ کو بھی چھیڑا ہے اور اس سے نتائج برآمد کئے ہیں۔ مرزا ہادی رسوا اردو کا پہلا نفسیاتی نقاد ہے جس نے ایک طوائف پر ناول ’’امراو جان ادا‘‘ لکھی ہے مرزا نے امریکہ سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی تھی اس تنقید کے مطابق کسی تخلیق کار کے ذاتی خطوط سے بھی اس کے لاشعور کو جانچا جا سکتا ہے جیسے شبلی کے خطوط عطیہ بیگم کے نام یا ’’شبلی کی حیات معاشقہ‘‘ سے شبلی کے جذباتی کشمکش کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر کے ’’اسی طرح اقبال نے عطیہ بیگم کو جو خطوط لکھے، ان میں بھی اس جذباتی کشمکش کا بین السطور مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ (مزید تفصیلات کے لیے راقم کی کتاب ’’اقبال کا نفسیاتی مطالعہ‘‘ سے رجوع کیا جا سکتا ہے‘‘۔

تحریر محمد ذیشان اکرم