علم بدیع اور اقسام

0

بدیع کے معنی اچھوتے اور نادر کے ہیں۔ علم بدیع کے ذریعے تحریر یا کلام میں اچھوتا پن لایا جاتا ہے۔ اس سے کلام کی آرائش و زیبائش کی جاتی ہے۔ اصطلاح میں بدیع اس علم کا نام ہے جس میں صنائع لفظی اور صنائع معنوی بیان کی جاتی ہے۔ صنائع، صنعت کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہنر، کاریگری اور مہارت کے ہیں۔

صنائع لفظی

صنائع لفظی لفظوں کی شعبدہ بازی ہے۔ اس سے لفظوں کے ہیر پھیر، الٹ پلٹ اور نوک پلک سنوارنے کلام میں آرائش و زیبائش پیدا کی جاتی ہے۔ صنائع لفظی میں خوبی لفظوں سے پیدا کی جاتی ہے۔

صنائع لفظی کی اقسام

1۔صنعت تجنیس:

کلام میں دو ایسے لفظ لانا جو تلفظ میں یکساں لیکن معنی میں مختلف ہوں۔ مثلاً:

تم رات کو نہ آئے جو اپنے قرار پر
یہ ظلم تم نے کیا کیا اس بے قرار پر

مذکورہ شعر میں”قرار” بمعنی وعدہ اور “قرار” بمعنی آرام استعمال ہوا ہے۔

2.صنعت اشتقاق:

کلام میں ایسے الفاظ لانا جو ایک ہی مادے اور مصدر سے مشتق ہوں۔ مثلاً:

وقت کی لوح غیر فانی ہے
حرف مٹتے نہیں مٹانے سے

مذکورہ بالا شعر میں لفظ”مٹتے” اور پھر لفظ”مٹانے” استعمال ہوا ہے۔دونوں لفظوں کا مصدر”مٹنا” ہے۔

3۔صنعت تکرار لفظی:

کلام میں ایک ہی لفظ کو دو بار لانا۔ مثلاً:

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

مذکورہ بالا شعر میں پتا پتا اور بوٹا بوٹا کے الفاظ سے صنعت تکرار پیدا کی گئی ہے۔

4۔صنعت ترصیع:

کلام میں ایسے دو مصرعے لانا جن میں دوسرے مصرعے کے الفاظ پہلے مصرعے کے الفاظ کے علی الترتیب ہم وزن اور ہم قافیہ ہوں۔ مثلاً:

ہمت نے مری مجھے اڑایا
غفلت نے تری مجھے چھڑایا

مذکورہ بالا شعر میں ہمت اور غفلت، مری اور تری، اڑایا اور چھڑایا ہم وزن اور ہم قافیہ ہیں۔

5۔صنعت سیاقتہ الاعداد:

کلام میں اعداد کا ذکر کرنا۔ مثلاً:

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

مذکورہ بالا شعر میں چار، دو اور دو اعداد ہیں۔

6۔صنعت تضمین:

کسی دوسرے شاعر کا کلام اپنے اشعار میں شامل کرنا۔ مثلاً

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
“آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں”

مذکورہ بالا شعر کا دوسرا مصرع امام بخش ناسخ کا ہے جسے غالب نے تضمین کیا ہے۔

صنائع معنوی

اگر معنوں میں خوبی پیدا کرکے کلام کی خوبصورتی اور تاثیر میں اضافہ کرنا ہو تو اسے صنائع معنوی کہیں گے۔

صنائع معنوی کی اقسام

1.صنعت تضاد:

کلام میں دو ایسے لفظ لانا جن کے معنی ایک دوسرے کی ضد ہوں۔ مثلاً:

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے

مذکور بالا شعر میں”صبح” اور “شام” ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

2۔ صنعت ایہام:

ایہام کے لغوی معنی ہیں وہم میں ڈالنا۔ اصطلاح میں کسی عبارت یا شعر میں ایسا لفظ یا الفاظ استعمال کرنا جس کے دو معنی ہوں، ایک قریب کے اور دوسرے بعید کے۔ لیکن لکھنے والا دور کے معنی مراد لے۔ مثلاً:

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کر کے

اس شعر کے دوسرے مصرعے میں”رات کاٹی خدا خدا کرکے” میں ایہام ہے۔ اس مصرعے کے جو فی الفور معنی ذہن میں آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم مسجد میں تمام رات اللہ ہو،اللہ ہو کا ورد کرتے رہے مگر شاعر یہ معنی مراد نہیں لے رہا۔ خدا خدا کرکے رات کاٹنا سے اس کی مراد”بڑی مشکل سے” ہے اور یہی معنی بعید ہیں۔

3۔صنعت مراعات النظیر:

کلام میں ایک لفظ کی نسبت سے ایسے دوسرے الفاظ استعمال کرنا جو اس لفظ سے تضاد کے علاوہ کوئی اور تعلق رکھتے ہوں۔ مثلاً:

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اس شعر میں کشت(کھیتی) کے تعلق سے نم، مٹی اور زرخیز کے الفاظ لائے گئے ہیں۔

4۔صنعت لف و نشر:

کلام میں پہلے دو یا دو سے زائد چیزوں کا ذکر کیا جائے اور پھر ان سے مناسبت اور تعلق رکھنے والی اتنی ہی چیزوں کا ذکر کیا جائے۔ کلام میں پہلے جن چیزوں کا ذکر کیا جائے وہ”لف” اور بعد میں آنے والی چیزیں”نشر” کہلاتی ہیں۔ مثلاً:

تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی

اقبال نے اس شعر میں”یہ دنیا” کی مناسبت سے “مرنے کی پابندی” اور “وہ دنیا” کے تعلق سے “جینے کی پابندی” کا ذکر کیا ہے۔

5۔صنعت حسن تعلیل:

کلام میں کسی بات کی کوئی نئی اور انوکھی وجہ بیان کی جائے جو اس کی اصل وجہ نہ ہو۔ اسے شاعرانہ علت بھی کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً:

اسی باعث سے دایہ طفل کو افیون دیتی ہے
کہ تا ہو جائے لذت آشنا تلخی دوراں سے

عام طور پر ہوتا یوں ہے کہ دایہ بچے کو سلانے کے لیے افیون کھلا دیتی ہے لیکن شاعر یہ وجہ بیان کرتا ہے کہ اصل میں دایہ بچے کو تلخی دوراں سے واقف کرانا چاہتی ہے۔

6۔ صنعت مبالغہ:

کلام میں کسی وصف، کیفیت یا حالت کو اس درجہ بڑھا چڑھا کر بیان کرنا کہ بادی النظر میں وہ ناممکن معلوم ہونے لگے۔ مثلاً:

جو اس زور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا

7۔ صنعت تجاہل عارفانہ:

کسی چیز کو جانتے ہوئے انجان بن جانا۔

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

شاعر رات بھر نیند نہ آنے کا سبب جانتا ہے مگر لا علمی کا اظہار کرتا ہے۔

8۔ صنعت تلمیع:

ایسا شعر جس کے دونوں مصرعے مختلف زبانوں میں ہوں۔ مثلاً:

دل اس کے عشق کے دریا میں ڈالا
توکلت علی اللہ تعالی

9۔ سہل ممتنع:

ایسا شعر جو نہایت سادہ اور آسان لفظوں میں لکھا گیا ہو لیکن اس میں فکر کی گہرائی پائی جاتی ہو۔ مثلاً:

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

10۔ صنعت جمع:

کلام میں ایک ہی قید، شرط یا حکم کے تحت چند چیزوں کو جمع کرنا۔ مثلاً:

ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

اس شعر میں میر نے اپنی ذات کو آپ کو اور دیگر احباب کو اس قید کے تحت کر دیا ہے کہ جو بھی اس حسین کو دیکھے، اس کی محبت میں گرفتار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

تحریر محمد ذیشان اکرم