اعراب اور اس کی اقسام

0

اعراب سے مراد وہ علامتیں ہیں جو الفاظ کے ہجے کرنے کی سہولت کی خاطر ان کا تلفظ واضح کرنے کےلیے ان کے مختلف حروف پر لگائی جاتی ہیں۔ اعراب یہ ہیں۔

زبر:

زبر ( َ )یہ علامات حروف کے اوپر لگائی جاتی ہے۔ اس کو عربی میں “فتحہ”بھی کہتے ہیں۔ یہ حروف ہر علامت ہوگی وہ مفتوح کہلائے گا۔

زیر:

زیر ( ِ) حرف کے نیچے آتی ہے۔ اسے کرہ بھی کہتے ہیں۔ جس حرف کے نیچے آئے اسے مسکورہ کہتے ہیں۔

پیش:

پیش ( ُ) یہ علامت بھی حرف کے اوپر لگائی جاتی ہے۔ اس کا دوسرا نام “ضمحہ”ہے۔ یہ علامت جس حرف پر ہو اسے “مضموم”کہتے ہیں۔

سکون:

کسی حرف کو ساکن ظاہر کرنا ہو تو یہ ( ^) علامت استعمال ہوتی ہے۔ اس کو سکون کہتے ہیں۔ اس کا دوسرا نام جزم بھی ہے۔

تشدید:

یہ علامت حروف کے اوپر لگائی جاتی ہے۔ جیسا “اللہ”میں اوپرلگی ہوئی علامت کو تشدید کہاجاتا ہے۔ اس کو شد بھی کہتے ہیں۔ اور یہ جس بھی حرف پر ہوتی وہ حرف مشدد کہلائے گا۔

الف ممدودہ:

وہ الف جس پر ~)) کا نشان ہو۔ اس کو کھینچ کر پڑھا جائے۔ جیسے آب، آتش، آج وغیرہ۔ کیونکہ مد کی وجہ سے الف دو الف کے برابر ہوتا ہے۔ اردو کی پرانی متعدد کتابوں میں الف ممدودہ کے لئے دو الف لکھے ہوتے تھے۔بعد میں اس کو مد روج کروا کے ممددودہ الف کو دو الف کے برابر مانا گیا۔

الف مقصورہ:

جس الف پر مد کی علامت نہ ہو اور اسے کھینچ کر پڑھا جائے اسے الف مقصورہ کہتے ہیں۔ جیسے اختر، انور، اکبر، التجا وغیرہ۔

ہمزہ(ء) اور اسکا بطور حرف استعمال

ہمزہ کا حروف ہونے میں بعض اہل علم کو اعتراض ہے وہ اسےکوئی حرف نہیں مانتے۔ بلکہ محض ایک علامت قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمزہ (ء) حرف بھی ہے اور علامت بھی۔ مثلاًً نغمئہ عندلیب میں یہ علامت اضافت ہے اور گئے میں بطور حرف استعمال ہو رہا ہے۔ حروف تہجی کے پرانی ترتیب میں کو “ہ”کے بعد جگہ دی جاتی تھی۔ حمزہ بعض اوقات “ی”کا کام بھی ہوتا ہے۔ جیسے قائم ، لئے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب “ء”ڈال دیا جائے تو نقطے نہیں لگتے۔ عربی کے بعض الفاظ “داؤ”پر ہمزہ لکھ دی جاتی ہےاور اس پر زیر ڈال دی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ہمزہ الف مقصورہ کی آواز دیتا ہے۔

نون غنہ

​نون غنہ خود تو ایک حرف نہیں ہے بلکہ وہ نون ہے جس کی آواز ناک سے نکلتی ہے۔املا میں لکھتے وقت ان نون میں نقطہ نہیں ڈالا جاتا۔ جیسے شریں اورفردوس بریں۔ دوسری بات قابل غور ہے کہ اگر نون گنہ کسی لفظ کے آخر میں آئیگا تو اس پر نقطہ نہیں لگے گا اور اس پر الٹا جزم بھی لگنا چاہیئے۔ جیسے عنبرین، کنول وغیرہ۔

تحریر محمد ذیشان اکرم