مولانا عبدالماجد دریابادی کی تحقیق نگاری

0

مولانا عبدالماجد دریابادی اردوادب کے صحیح معنوں میں محقق تو نہیں لیکن اردو ادب سے ان کی غیر معمولی دلچسپی نے انہیں محقق ہونے کے قریب تک پہنچا دیا ہے۔ فلسفے کی طرف ان کی توجہ خاص ہے لیکن ادب سے بھی وہ کچھ دلچسپی ضرور لیتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے چند تنقیدی مضامین اور تبصرے بھی لکھے ہیں جو “مضامین عبدالماجددریابادی” اور “مقالات ماجد” کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ انہیں مضامین اور تبصروں سے ان کے تنقیدی خیالات کا اندازہ ہوتا ہے۔

مولانا عبدالماجد دریابادی پر مذہب کا بڑا گہرا اثر ہے۔ وہ بغیر مذہب کا سہارا لئے ہوئے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتے۔ مذہب کے اسی گہرے اثر کا نتیجہ ہے کہ وہ ایسی باتوں کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں جن کی نوعیت ماورائی اور مابعد طبعیاتی ہوتی ہے۔ وہ ہر چیز کا رشتہ عالم بالا سے جوڑ دینا چاہتے ہیں‌۔ چناچہ یہ خصوصیت ان کے نظریۂ شاعری میں نظر آتی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

“شاعر کی آواز الہام کی آواز ہوتی ہے، ہاں ہر شاعر کی نہیں، اس شاعر کی نہیں جو بے صبری کے ساتھ تحلیل کی ہر وادی میں ٹھوکریں کھاتا اور اپنا سر ٹکراتا پھرتا ہے۔ بلکہ اس شاعر کی جو ایمان کی روشنی میں، بصیرت کی شعاعوں میں، “و اشعروا من بعد ما ظلموا”کے سائے رحمت میں حقیقت کی منزلیں طے کرتا ہوتا ہے”

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ شاعری کو بالکل ایک الہامی چیز سمجھتے ہیں۔ لیکن اس شاعری کو الہامی سمجھتے ہیں جس کا پیش کرنے والا ایمان و بصیرت رکھتا ہو اور اس کی شاعری بھی اس رنگ میں رنگی ہوئی ہو۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مذہبی شاعری کو بلند ترین سمجھتے ہیں۔

مذہب چونکہ ان کے نزدیک زندگی کی اعلی اقدار کا حامل ہے اس لیے شاعری کے متعلق ان کا یہ خیال کچھ تعجب انگیز نہیں۔ اس خیال کے علاوہ وہ کہیں اپنے نظریات تنقید کی وضاحت نہیں کرتے۔ ان کی عملی تنقید سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ شاعری میں تخیل، طرز ادا، لطف ادا، لطف زبان، خیال کی ندرت، ترکیبوں کی صفائی اور جدت کے عناصر کو تلاش کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ شاعری میں کوئی پیغام ضرور موجود ہونا چاہیے، یہ خصوصیت اس کے مرتبے کو بڑھا دیتی ہے۔

ان کی عملی تنقید میں دوسرے نقادوں کی طرح مشرقی رنگ غالب ہے۔ اگرچہ مغربی ادبیات سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں ،لیکن اپنے انداز تنقید کو انہوں نے پوری طرح مشرقی بنایا ہے۔ جو چیزیں انہیں پسند آئی ہیں وہ ان کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ اقبال کے متعلق لکھتے ہوئے ایک شعر کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں:

“اور شعر تو یہ کیا ہے کہ ایک شعر پر دوسروں کے دیوان قربان ہیں۔ کیا سارے کانگرسی لٹریچر میں اس سے زیادہ کچھ مل سکتا ہے، کیا بڑے سے بڑے احرار نے اس سے زیادہ کچھ کہاہے”

اسی طرح غالب کا ایک شعر نقل کرنے سے قبل لکھتے ہیں:

“کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں” اسی طرح حالی کے متعلق ایک جگہ اس خیال کا اظہار کرتے ہیں:
“وداع رخصت کے بڑے بڑے رقت انگیز مضمون آپ کی نظر سے گزرے ہوں گے لیکن حسرت و یاس کی جو تصویر اس رونے میں گئی ہے اس کا بھی کوئی جواب ہے؟”

عبدالماجد دریابادی کی تنقید کا یہ انداز اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے یہاں تنقید کا تاثراتی رنگ موجود ہے اور اس میں مشرقیت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سادگی، سلاست، ندرت، خیال، ترکیبوں کی صفائی اس میں کیسے آسکتی تھی لیکن خیال کی ندرت، طبعیت کی جدت اس نو مشقی میں بھی تو کچھ ڈھکی چھپی نہیں۔

غرض یہ کہ اس طرح وہ مشرقی تنقید کی طرف اپنے رحجان کا پورا ثبوت دیتے ہیں۔تشریح بھی ان کی تنقید کی ایک خصوصیت ہے، وہ مطالب کو زیادہ سے زیادہ واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انکو اپنے اسلوب سے بڑی محبت ہے اور اس میں شک نہیں کہ وہ ایک خاص اسلوب کے مالک ہیں، لیکن تنقید میں ان کا یہ اسلوب کچھ زیادہ مفید ثابت نہیں ہوتا۔

بہرحال ان کی تنقید کی خصوصیات یہ ہیں۔ ان کی تنقید مقدار میں بھی زیادہ نہیں ہے۔ نظریاتی تنقید کی طرف تو انہوں نے ذرا بھی توجہ نہیں کی ہے اور عملی تنقید کی بھی جو مثالیں ان کے یہاں ملتی ہیں وہ بھی تنقید کے اعتبار سے بہت زیادہ اہم نہیں کیونکہ اس میں انہوں نے کسی خاص اصولوں کو بہت کم پیش نظر رکھا ہے۔ ان کا اندازِ بیان تنقید کے لئے موزوں نہیں ہے۔ اسلوب کو برقرار رکھنے کا خیال تنقید کی طرف سے ان کی توجہ کو بڑی حد تک ہٹا دیتا ہے۔اور شاید اسی وجہ سے بہت کم قابل ذکر تنقیدی خیالات کا ذکر کر پاتے ہیں۔ البتہ ان کی تحریریں خوش اسلوبی کی وجہ سے دلچسپ ضرور ہوتی ہیں۔