سید مسعود حسن ادیب بحیثیت محقق | Syed Masood Hasan Rizvi Adeeb Tahqeeq Nigari

0

سید مسعود حسن ادیب بھی اردو کے محقق تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کئی کتابوں کو مرتب کیا ہے۔ وہ اپنے ادبی اور تحقیقی کارناموں کے متعلق خود لکھتے ہیں ہیں: “ذوقؔ کی تحریک حالات کی مساعدت اور خیالات کی یکسوئی کی بدولت مجھ سے جو تھوڑا بہت ادبی کام ہو سکا ہے اس سے میرا شمار ادب کے خدمت گزاروں میں ہونے لگا ہے اور میرے خود فراموشانہ انہماک سے امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ بھی کچھ قابل ذکر خدمات انجام دے سکوں گا۔اب تک جن کتابوں کی تصنیف و تالیف اور ترتیب یا ترجمہ میرے ہاتھوں انجام پا چکا ہے ان کے نام یہ ہیں:

“امتحان وفا” ” فرہنگ مثال” ” ہماری شاعری” “فیض میر مجالس رنگین” “دبستان اردو” “روح انیس” “نظام اردو” “جواہر سخن جلد دوم” “شاہکار انیس” اس کے علاوہ بہت سے تحقیقی اور تنقیدی مضامین مختلف رسالوں میں شائع ہوچکے ہیں اور نامکمل کاموں کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے اگر ان کی تکمیل ہوگئی تو امید ہے کہ اردو ادب میری خدمتوں کو جلد فراموش نہ کرسکے گا” ان کاموں کے علاوہ انہوں نے “کلیات فائز” کو بھی مرتب کیا ہے اور اندر سبھا وغیرہ پر بھی کچھ کام کیا ہے۔

یوں ان کے مضامین اور دوسری تحقیقی تحریروں میں بھی تنقید کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ لیکن نظریاتی تنقید پر ان کی ایک مستقل کتاب “ہماری شاعری” ہے۔ ہماری شاعری ان کے دو طویل مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے اردو شاعری پر عام اعتراضات کے جوابات نہایت مدلل انداز میں دیے ہیں۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں شعر کی اہمیت اور ماہیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دوسرے حصے میں اعتراضوں سے بحث کی گئی ہے۔ بہرحال اس کا مقصد کچھ بھی ہو اس کتاب میں یہی دو چیزیں ملتی ہیں جن سے مسعود صاحب کے تنقیدی نظریات اور اندازِ تنقید دونوں کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

مسعود صاحب سوچ سمجھ کر بات کرنے کے عادی ہیں۔ تحقیق ان کی گھٹی میں پڑی ہے، احتیاط کو وہ ایمان سمجھتے ہیں، ان کی طبیعت کا عام رحجان یہ ہے کہ وہ اسلاف کے کارناموں کی اہمیت کو پہچانیں اور ان کا صحیح اندازہ لگائیں کیونکہ ان کے خیال میں جدید خیالات اور نئے رحجانات کی عمارت اس وقت تک دیر پا نہیں ہوسکتی جب تک ان کا رشتہ روایات سے نہ جوڑا جائے۔

مسعود صاحب نے فارسی اردو اور انگریزی تینوں ادبیات کا گہرا مطالعہ کیا ہے لیکن وہ مغرب سے واقفیت کے باوجود اس سے بہت کم متاثر ہوئے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں مشرقی ادبیات کو مغرب کے تنقیدی معیاروں سے نہیں جانچا جاسکتا۔

شاعری مسعود صاحب کے نزدیک جذبات کے اظہار کا دوسرا نام ہے۔ وہ انسانی زندگی میں جذبات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں جذبات ہی کی وجہ سے دنیا میں رونق اورچہل پہل موجود ہے۔ وہ شاعری کو بیکار مشغلہ نہیں سمجھتے، وہ اس کے مقصدی ہونے کے قائل ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

“یہ سچ ہے کہ شعر سے لازمی طور پر کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا لیکن اگر ذہن کی تیزی، دل کی شگفتگی، روح کی بیداری اور اخلاق کا شمار بھی فائدوں میں ہے تو شعروشاعری کے مفید ہونے سے کون انکار کر سکتا ہے”

حالیؔ نے ملٹنؔ کے اس قول پر کہ “شاعری میں سادگی! اصلیت کا جوش ہونا ضروری ہے” نہایت تفصیل سے بحث کی ہے اور انہوں نے انہیں خصوصیات کو شاعری کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔مسعود صاحب بھی تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ کم و پیش انہیں خصوصیات کو شاعری کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ سادگی، اصلیت اور جوش کے بجائے انہوں نے اصلیت، سادگی، بلندی، باریکی اور تڑپ کی اصطلاحیں وضع کی ہیں۔بس اتنا ہی حالی سے اختلاف ہے، ورنہ مجموعی تصور سے ان کا مطلب وہی ہے جو حالی کا تھا۔ مسعود صاحب نے خود بھی حالی کے اثرات کا اعتراف کیا ہے۔

مسعود صاحب کے تنقیدی نظریات پر مشرقی رنگ غالب ہے۔ ان کے سوچنے کا تمام تر انداز مشرقی ہے۔عملی تنقید میں بھی مسعود صاحب ان اصولوں کا خاص طور پر خیال رکھتے ہیں اور انہی کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ مناسب الفاظ، زور، باریکی، تڑپ، وضاحت، حسن بیان، صنائع بدائع، قافیہ، ردیف وغیرہ کی طرف ضرور توجہ دلاتے ہیں۔

مسعود صاحب کی تنقید اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وہ مشرقی ہوتے ہوئے بھی سائنٹیفیک انداز کی ہے۔ وہ محقق ہیں، چھن بین ان کی فطرت بن چکی ہے اور یہ خصوصیت ان کی تنقید میں بھی موجود ہے جس کی وجہ سے ان کی تنقید میں بہت سنبھلی ہوئی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ ایک نقاد کی حیثیت سے وہ منفرد ہیں۔