Advertisement
Advertisement

ایک تہوار کے موقع پر میں نے اپنے والدین بہن بھائیوں کو اپنے ہاں رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ سب گھر والے پہلے پہنچ چکے تھے۔ عصر کے وقت میرے والد محترم تشریف لاۓ اور آتے ہی اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے لگے، پھر مجھے علیحدگی میں لے جاکر کہنے لگے: تو تو بہت بیوقوف ہے۔

Advertisement

اس اچانک پڑنے والی ڈانٹ پر میرے چودہ طبق روشن ھوگئے اور میں سوالیہ نگاھوں سے والد محترم کو دیکھنے لگا۔ میری نظروں کے سوال کو بھانپ کر فرمانے لگے: اس خوشی کے موقع پر تونے اپنے سب گھر والوں کو تو جمع کرلیا مگر اپنے سسرال میں سے کسی ایک کو بھی بلانا گوارا نہ کیا؟ خوشی کے اس موقع پر تیرے سب گھر والوں کو دیکھ کر کیا تیری بیوی اپنے گھر والوں کی کمی محسوس نہیں کرے گی؟

غلطی کے احساس سے میری جھکی گردن دیکھ کر فرمانے لگے: چل فوراً اپنے سسرال فون کرکے سب کو کھانے پر بلا۔ میں نے قدرے پریشان ہوتے ہوئے کہا اب کھانے کا اس قدر جلد انتظام کس طرح ممکن ہے؟۔۔ فرمانے لگے ہم کھانا بعد میں کھالیں گے پہلے ان کی خدمت میں پیش کردیں گے۔ اس طرح کر کہ اپنی بیگم سے کچھ نہ کہہ بس اپنی امی سے جا کر کہہ دے کہ مزید کھانے کا انتظام کرلیں۔ حکم کی تعمیل کی۔
خلاصہ یہ کہ جب میرے سسرال والے آۓ تو انہیں اچانک سامنے دیکھ کر میری بیگم صاحبہ خوشی سے پھولے نہیں سمارھی تھیں۔ ان کی خوشی دیکھ کر میرے والد محترم نے مجھے بے تکلفی سے کہنی مارتے ہوۓ فرمایا: کیوں بھئی فائدہ ہوا یا نہیں؟ جس کا جواب میں نے بھرپور قہقہے کی صورت میں دیا۔

Advertisement

میاں بیوی کا ایک دوسرے کی خوشی کا احساس جہاں گھریلو ماحول کو دولتِ سکون عطاء کرتا ہے وہاں والدین کی صحیح رہنمائی اسی دولت میں کئی گنا اضافے کا سبب ہے۔

Advertisement

Advertisement