ایمان افروز داستان

0

سال 1977ء میں ایک کینیڈین پروفیسر گیری ملر نے قرآن مجید میں کوئی خامی تلاش کرنے کا ارادہ کیا۔ گیری ملر ٹورنٹو یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور عیسائی مبلغ بھی تھا، اس کا خیال تھا کہ قرآن مجید میں خامی ڈھونڈ لینے سے مسلمانوں کو عیسائیت پر لانے میں مدد ملے گی۔

ملر نے قران مجید کے مطالعے کے بعد جو کچھ لکھا انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ لکھا، قرآن مجید کے بغور مطالعے کے بعد ملر نے لکھا کہ ایسی تحریر لکھنا کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید کی سب سے پہلی چیز جس نے ملر کو متاثر کیا وہ اس کتاب مقدس کی کئی آیات کا ایک خاص انداز تھا۔ مثلاً سورة النساء کی 82ویں آیت، جس کا ترجمہ ہے کہ تو کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ (قرآن مجید) اللہ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو بے شک وہ اس میں کئی غلطیاں پاتے۔۔۔ اور سورة البقرة کی 23ویں آیت، جس کا ترجمہ ہے کہ اور اگر تم اس کتاب پر شک کرتے ہو جو ہم نے اپنے پیغمبر پر اتاری، تو اس جیسی ایک سورة لا کر دکھاﺅ۔

قرآن مجید پر تحقیق کے بعد پروفیسر ملر نے “دی امیزنگ قرآن” کے نام سے ایک لیکچر دیا جس میں اس نے کہا کہ دنیا میں ایسا کوئی مصنف نہیں ہے جو ایک کتاب لکھے اور پھر لوگوں کو چیلنج کرے کہ آﺅ میری کتاب میں سے غلطی نکال کر دکھاﺅ، جس طرح قرآن مجید میں بارہا کہا گیا ہے۔
ملر مزید کہتا ہے کہ یہ بہت ہی حیران کن ہے کہ قرآن مجید میں جو آیات مسلمانوں کی کسی شکست یا صدمے کے موقع پر نازل ہوئیں ان میں فتح کی خوشخبری سنائی گئی جبکہ جو آیات کسی فتح کے موقع پر نازل ہوئیں ان میں غرور و تکبر سے بچنے کی تنبیہہ کی گئی ہے اور مسلمانوں سے مزید جدوجہد اور قربانیاں طلب کی گئی ہیں۔

گیری ملر کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی آپ بیتی لکھتا ہے تو وہ اپنی فتوحات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور شکست کو بھی حیلے بہانے سے جیت ہی قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن قرآن مجید میں تسلسل کے ساتھ اور انتہائی منطقی انداز میں اس کے بالکل برعکس لکھا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کسی ایک مخصوص وقت کی تاریخ بیان نہیں کی گئی بلکہ اس میں عام قوانین وضع کیے گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے مابین تعلق کے خدوخال کا تعین کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ گیری ملر نے 1977ء میں قرآن مجید پر تحقیق کا آغاز کیا تھا اور محض ایک سال بعد 1978ء میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور اپنا نام عبدالاحد رکھ لیا تھا۔ اس کے بعد سے انہوں نے اپنی زندگی اسلام کی دعوت کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ وہ ٹی وی پروگرامز اور پبلک لیکچرز میں لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔