میاں بیوی کا ایک دوسرے کی خوشی کا احساس

0

ایک تہوار کے موقع پر میں نے اپنے والدین بہن بھائیوں کو اپنے ہاں رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ سب گھر والے پہلے پہنچ چکے تھے۔ عصر کے وقت میرے والد محترم تشریف لاۓ اور آتے ہی اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے لگے، پھر مجھے علیحدگی میں لے جاکر کہنے لگے: تو تو بہت بیوقوف ہے۔

اس اچانک پڑنے والی ڈانٹ پر میرے چودہ طبق روشن ھوگئے اور میں سوالیہ نگاھوں سے والد محترم کو دیکھنے لگا۔ میری نظروں کے سوال کو بھانپ کر فرمانے لگے: اس خوشی کے موقع پر تونے اپنے سب گھر والوں کو تو جمع کرلیا مگر اپنے سسرال میں سے کسی ایک کو بھی بلانا گوارا نہ کیا؟ خوشی کے اس موقع پر تیرے سب گھر والوں کو دیکھ کر کیا تیری بیوی اپنے گھر والوں کی کمی محسوس نہیں کرے گی؟

غلطی کے احساس سے میری جھکی گردن دیکھ کر فرمانے لگے: چل فوراً اپنے سسرال فون کرکے سب کو کھانے پر بلا۔ میں نے قدرے پریشان ہوتے ہوئے کہا اب کھانے کا اس قدر جلد انتظام کس طرح ممکن ہے؟۔۔ فرمانے لگے ہم کھانا بعد میں کھالیں گے پہلے ان کی خدمت میں پیش کردیں گے۔ اس طرح کر کہ اپنی بیگم سے کچھ نہ کہہ بس اپنی امی سے جا کر کہہ دے کہ مزید کھانے کا انتظام کرلیں۔ حکم کی تعمیل کی۔
خلاصہ یہ کہ جب میرے سسرال والے آۓ تو انہیں اچانک سامنے دیکھ کر میری بیگم صاحبہ خوشی سے پھولے نہیں سمارھی تھیں۔ ان کی خوشی دیکھ کر میرے والد محترم نے مجھے بے تکلفی سے کہنی مارتے ہوۓ فرمایا: کیوں بھئی فائدہ ہوا یا نہیں؟ جس کا جواب میں نے بھرپور قہقہے کی صورت میں دیا۔

میاں بیوی کا ایک دوسرے کی خوشی کا احساس جہاں گھریلو ماحول کو دولتِ سکون عطاء کرتا ہے وہاں والدین کی صحیح رہنمائی اسی دولت میں کئی گنا اضافے کا سبب ہے۔