ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا

0

غزل

ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو رازداں اپنا
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا
درد دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلادُوں
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خوں چکاں اپنا
تا کرے نہ غمازی، کرلیا ہے دشمن کو
دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب! دشمن آسماں اپنا

تشریح

پہلا شعر

ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو رازداں اپنا

غالب کو اپنے انداز بیان پر بجا طور پر فخر ہے۔اس شعر میں بھی کچھ ایسا ہی کہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک تو ہمارا محبوب حسن مجسم کا پیکر ہے۔اس پر ہماری رنگین بیانی نے وہ جادو جگایا کہ ہمارا راز دان ہی ہمارا رقیب بن گیا۔یعنی وہ بھی اس پر عاشق ہوگیا۔

دوسرا شعر

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا

شاعر کہتا ہے کہ اس وقت ہمارا مکان عرش پر واقع ہے اور عرش سے زیادہ بلند کوئی مقام نہیں ہے۔ کاش! ہمارا مکان عرش سے کچھ نیچے ہوتا تو ہم عرش کو منظر بنا لیتے اور اس کی جُستجو کرتے۔ دوسرے لفظوں میں ہم اور ترقی کرنا چاہتے تھے لیکن ہم چوں کہ پہلے ہی آخری حد کو پہنچ چکے ہیں،اس لیے ہماری یہ آرزو پوری نہیں ہوسکتی۔

تیسرا شعر

درد دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلادُوں
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خوں چکاں اپنا

شاعر کہتا ہے کہ میں اپنے درد دل کی داستان کہاں تک لکھتا رہوں کہ اس کو لکھتے لکھتے میری انگلیاں زخمی ہوگئی ہیں۔ لہٰذا کیوں نہ میں ان کے پاس جاؤں اور اپنی حالت، اپنی انگلیاں اور اپنے ہون آلودہ خامہ ان کو دکھا دوں۔شاید وہ میری حالت زار کو سمجھ جائیں اور میری آرزو پوری ہو جائے۔

چوتھا شعر

تا کرے نہ غمازی، کرلیا ہے دشمن کو
دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا

اس خیال کے ڈر سے کہ رقیب میرے محبوب کے پاس جائے گا اور میری چغلی کھائے گا، میں نے محبوب کی شکایت میں اس کو اپنا ہم زبان بنا لیا ہے۔میں نے اس انداز سے محبوب کی شکایت کی کہ وہ بھی ہاں میں ہاں ملاتا گیا۔ اس طرح اب وہ میری غّمازی نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس پر بھی الزام آتا ہے۔

پانچواں شعر

ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب! دشمن آسماں اپنا

غزل کے مقطعے میں غالب نے بڑی ہنرمندی سے اپنی دانائی اور ہنرمندی ثابت کی ہے۔کہتے ہیں کہ آسمان اس آدمی کا دشمن ہوتا ہے جو دانا ہو اور ہنر مند ہو۔غالب نے آسمان کو اپنا دشمن بتا کر اپنی دانش مندی اور ہنرمندی کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔