دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟

0

غزل

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار ، کوئی ہمیں ستائے کیوں؟
دیر نہیں ،حرم نہیں در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں؟
جب وہ جمال دل فروز، صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز ،پردے میں منہ چھپائے کیوں؟
دشنۂ غمزدہ جاں ستاں،ناوک ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں؟
قید حیات و بند غم ،اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
حُسن اور اس پہ حُسنِ ظن، رہ گئی بو الہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے،غیر کو آزمائے کیوں؟
واں وہ غرور عزوناز ،یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں؟ بزم میں وہ بلائے کیوں؟
ہاں ، وہ نہیں وفا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں؟
غالب خستہ کے بغیر،کون سے کام بند ہیں؟
روائیے زار زار کیا کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟

تشریح

پہلا شعر

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار ، کوئی ہمیں ستائے کیوں؟

اس شعر کو پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ عاشق معشوق کو رونے سے روکتا ہے اور معشوق کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ اپنے آنسو روک سکے۔اب شاعر کہتا ہے کہ ہمارا دل کوئی اینٹ پتھر تو نہیں کہ کوئی ستائے جائے اور یہ برداشت کرتا رہے۔ اب ہم سے صبر نہیں ہوتا۔ ہم روئیں گے اور ایک بار نہیں ہزار بار روئیں گے۔ کوئی ہمیں کیوں ستائے۔

دوسرا شعر

دیر نہیں ،حرم نہیں در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں؟

شاعر کہتا ہے کہ ہم سرِ راہ بیٹھے ہیں اور ظاہر ہے راستہ کسی کی جاگیر نہیں ہوتی، ہر شخص استعمال کر سکتا ہے۔ یہ بت خانہ یا کعبہ کا در نہیں کہ کوئی ہمیں وہاں سے نکال دے۔ نہ ہی کسی کی دہلیز ہے کہ یہاں سے ہمیں اٹھا دیا جائے۔ لہٰذا رقیب ہمیں یہاں سے اٹھ جانے کے لیے کیوں مجبور کرتا ہے؟

تیسرا شعر

جب وہ جمال دل فروز، صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز ،پردے میں منہ چھپائے کیوں؟

شاعر کہتا ہے کہ جب محبوب کا جمال دل فروز دوپہر کے سورج کی مانند نظارہ سوز ہے کہ اس کو کوئی دیکھ ہی نہیں سکتا تو پھر وہ اپنا چہرہ پردے میں کیوں چھپاتا ہے۔ وہ کیوں بے نقاب نہیں ہوتا۔

چوتھا شعر

دشنۂ غمزدہ جاں ستاں،ناوک ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں؟

شاعر محبوب سے مخاطب ہے، کہتا ہے کہ اے محبوب تیرے نازو کےخنجر جان لینے والے اور تیری اداؤں کے تیر بے پنا ہیں کہ کسی کو ان سے امان نہیں مل سکتا۔ اب جب تیرے ناز و ادا کی جانستانی کا یہ عالم ہے تو کس کی مجال ہے جو تیرے سامنے آئے۔بلکہ جب تیری ہی روح کا عکس تیرے سامنے پڑے گا تو اس کو بھی گزین پہنچے گی۔

پانچواں شعر

قید حیات و بند غم ،اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟

شاعر کہتا ہے کہ حیات کی قید اور بند غم دراصل دونوں ایک ہی ہیں۔ دونوں میں کسی قسم کا فرق نہیں ہے۔ جو آدمی زندگی کی قید میں ہے وہ ہمیشہ مصائب و آلام میں مبتلا رہتا ہے اور جو شخص مشکلوں میں گرفتار ہے وہ بھی رنج و غم میں پھنسا رہتا ہے۔ پس نتیجہ یہ نکلا کہ جب تک انسان زندہ ہے اس کو غم سے نجات نہیں مل سکتی۔ اور جب موت آے گی تو غم بھی نہیں رہے گا۔

چھٹا شعر

حُسن اور اس پہ حُسنِ ظن، رہ گئی بو الہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے،غیر کو آزمائے کیوں؟

اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ ایک تو محبوب بہت حسین ہے اور اس پر اسے گمان بھی،جو درست ہے کہ میرا مارا کبھی بچتا نہیں اور میرے غمزے کا تیر کبھی خطا نہیں ہوتا۔اب جب اس کو ایسا یقین ہے تو وہ رقیب کا امتحان کیوں لے۔اس طرح اس حسن ظن نے رقیب کی لاج رکھ لی اور ورنہ رقیب کوئی سچا عاشق نہیں۔اگر محبوب اس کا امتحان لے لیتا تو حقیقت عیاں ہو جاتی۔

ساتواں شعر

واں وہ غرور عزوناز ،یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں؟ بزم میں وہ بلائے کیوں؟

شاعر کہتا ہے کہ محبوب سے ہم راستے میں اس لیے نہیں ملتے کہ ہم کو اپنی وضع داری کا پاس ہے اور نہ ہی ہماری عزت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم اس سے سر رہ بات کریں۔ادھر وہ ہمیں اپنی محفل میں اس لیے نہیں بلاتا کہ اس کے عزّوناز میں فرق آتا ہے۔ لہذا ان حالات میں اس سے ملاقات کیوں کر ہو سکتی ہے۔

آٹھواں شعر

ہاں ، وہ نہیں وفا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں؟

عاشق کے ہمدرد اس کو سمجھاتے ہیں کہ تیرا محبوب بے وفا ہے۔ اس کے عشق سے دور رہ اور ایسے بے وفا کے لیے اپنی دین و دنیا خراب مت کر۔ عاشق یہ سن کر ناراض ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ چلو وہ بے وفا ہی سہی۔جس کو اپنا دین و دل پیارا ہے اس کی گلی میں نہ جائے یعنی تمہیں اپنا دین و دل عزیز ہے اس سے عشق نہ کرو۔ مگر ہم تو جائیں گے اور اس سے عشق کرتے رہیں گے۔

نواں شعر

غالب خستہ کے بغیر،کون سے کام بند ہیں؟
روائیے زار زار کیا کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟

غزل کے آخری شعر میں جیسے غالب مر گئے ہیں۔ احباب غم میں زار زار رو رہے ہیں اور سینے پیٹ کر ہائے ہائے کر رہے ہیں۔ اب ان احباب کو تسکین دینے کے لیے کہا جاتا ہے کہ غالب کی ذات سے تو کچھ خاص فائدہ نہ تھا اور اس کے مر جانے سے تمہارے کون سے کام بند ہو جاتے ہیں لہذا تم اس طرح ہائے ہائے کرکے زار زار کیوں رو رہے ہو؟