ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا؟

0

غزل

ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا؟
نہ ہو مرنا ،تو جینے کا مزا کیا؟
فروغ شعلہ خس یک نفس ہے
ہوس کو پاس ناموس وفا کیا؟
دماغ عطر پیرا ہن نہیں ہے
غم آوارگی ہائے صبا کیا؟
دل ہر قطرہ ہے ساز انا الجر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا؟
سن اے غارت گر جنس وفا سن
شکست قیمت دل کی صدا کیا؟
کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ
شکیب خاطر عاشق بھلا کیا؟
یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنۂ طاقت رُبا کیا؟
بلائے جاں ہے غالب !اس کی ہر بات
عبارت کیا؟اشارت کیا؟ادا کیا؟

تشریح

پہلا شعر

ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا؟
نہ ہو مرنا ،تو جینے کا مزا کیا؟

شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں جو چہل پہل ہے اسد یقین کے سبب سے ہے کہ دنیا میں رہنے کی مہلت بہت تھوڑی ہے۔یہ انسانی فطرت ہے کہ جس قدر فرصت قلیل ہو گئی اور اس قدر زیادہ سرگرمی سے کام کو انجام دیتا ہے اور جس قدر مہلت زیادہ ملتی ہے اسی قدر کام میں تاخیر کرتا ہے۔بس اگر موت نہ آیا کرتی اور ابد تک زندہ رہنا ہوتا تو جینے میں کوئی مزہ نہ آتا۔کیونکہ نہ تو یہ جوش و خروش ہوتا اور نہ یہ چہل پہل ہوتی۔

دوسرا شعر

فروغ شعلہ خس یک نفس ہے
ہوس کو پاس ناموس وفا کیا؟

شاعر کہتا ہے کہ اہل ہوس کی محبت تنکے کے شعلے کی طرح ہے کہ دم بھر سے زیادہ روشن نہیں رہ سکتا۔بھلا ایسے لوگوں کو وفا کی عزت کا کیا پاس ہوگا۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ رقیب کی محبت چار دن کی ہے۔اس پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔یہ وفا کی ناموس کہاں رکھ سکتا ہے۔

تیسرا شعر

دماغ عطر پیرا ہن نہیں ہے
غم آوارگی ہائے صبا کیا؟

شاعر کہتا ہے کہ اگر صبا پیراہن محبوب کی خوشبو کو چار سو پریشان کرتی پھرتی ہے تو ہمیں اس کا غم نہیں ہے۔اس کا غم کیسا؟غم تو جب ہوتا کہ ہم اس سے لطف اندوز ہو سکتے۔مگر ہم تو سونگھ ہی نہیں سکتے کیونکہ ہمیں اس کی برداشت ہی نہیں ہے۔

چوتھا شعر

دل ہر قطرہ ہے ساز انا الجر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا؟

شاعر کہتا ہے کہ ہر قطرے کے ساز دل سے انا الجر کا نغمہ نکل رہا ہے۔ ’’میں سمندر ہوں‘‘کا گویا گیت گا رہا ہے۔قطر اگرچہ بہت چھوٹا ہے لیکن جب دریا میں ملتا ہے تو دریا بن جاتاہے۔اس کی طرح ہر قطرہ دریا ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔اسی طرح ہم بھی اس بحر بیکراں کے جُز ہیں۔لہذا قطرے کی مانند ہم بھی انا الحق یعنی میں خُدا ہوں کے مُدعی ہیں۔

پانچواں شعر

سن اے غارت گر جنس وفا سن
شکست قیمت دل کی صدا کیا؟

اے عاشقوں کو برباد کرنے والے معشوق ذرا غور سے سن کہ دل کو توڑنے میں کوئی آواز نہیں ہوتی۔اس لئے دل کو نہ توڑ۔یعنی دل کی بے قدری مت کر۔کیونکہ اس کے ٹوٹنے کی آواز سے تمہیں جو لطف اندوز ہونے کی سُوجھی ہے وہ آرزو کبھی پوری نہیں ہوگی۔اس لیے کہ اس کے ٹوٹنے سے کوئی آواز ہی پیدا نہیں ہو گی جو تم سن سکو اور لطف انداوز ہو سکو۔

چھٹا شعر

کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ
شکیب خاطر عاشق بھلا کیا؟

شاعر کہتا ہے کہ میں نے کب دعویٰ کیا کہ تمہاری جدائی میں مجھے قرار آے گا۔ عاشق کا یہ دعوی کرنا حقیقت ہی کیا رکھتا ہے۔ تم میرے صبر و استقلال کو پل بھر میں غارت کر سکتے ہو۔ لہٰذا جگر داری کا دعویٰ کرنے کی غلط فہمی سے جو تم بدگمان ہو گئے ہو وہ بدگمانی دور کرو اور مجھے زیادہ بے چین نہ کرو۔

ساتواں شعر

یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنۂ طاقت رُبا کیا؟

شاعر کہتا ہے کہ اے قاتل محبوب تو یہ صبر آزما وعدہ مجھ سے کیوں کرتا ہے۔ تیرے لیے یہ معمولی بات ہے لیکن میرے لیے صبر آزما وعدہ فتنہ طاقت رُبا ہے۔یعنی ایسا فتنہ ہے جو طاقت کو زائل کرتا ہے۔ سکت باقی نہیں رہنے دیتا۔

آٹھواں شعر

بلائے جاں ہے غالب !اس کی ہر بات
عبارت کیا؟اشارت کیا؟ادا کیا؟

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی ہر بات میرے لیے بلائے جان ہے۔گویا سخت مصیبت ہے۔وہ چاہے اس کی تحریر ہو، چاہے ناز و انداز ہو۔با الفاظ دیگر میرے اندر عشق کا جذبہ اس قدر تیز ہے کہ محبوب کی ہر بات ہر ادا دل میں بے قراری پیدا کردیتی ہے۔