افسانہ دیمک تجزیہ و تبصرہ

0

غیاث احمد معروف اردو افسانہ نویس ہیں، آپ کے افسانوں کے عمومی موضوعات سماجی مسائل ہیں۔ ان کے معروف افسانوں میں ”پرندہ پکڑنے والی گاڑی“، قیدی، دیمک اور تج دو“ شامل ہیں۔

افسانہ دیمک کا مختصر خلاصہ

افسانے کا مرکزی کردار ایک کلرک حنیف ہے جو اپنی اہلیہ اور چار بچوں کی گزر بسر کے لیے سخت مشکلات کا شکار ہے۔ محدود آمدن میں گھر کا خرچ قرض پر چلتا ہے۔ زندگی اسی ادھیڑ بن میں گزر رہی ہے کہ اس ماہ اخراجات کیسے پورے کریں اور قرض داروں کی رقم کیسے چکائیں۔ تفکرات ہر وقت حنیف کو گھیرے رکھتے ہیں اور وہ عجیب سی اندرونی کشمکش کا شکار ہے۔

اس کی اہلیہ سعیدہ ایک تابع فرمان اور سگھڑ خاتون ہے۔ عرصہ سے کان کے بُندے بھی خریدنا چاہتی ہے۔ ایسے میں سعیدہ کی سہیلی بطور امانت اپنی انگوٹھی اس کے پاس رکھواتی ہے۔ تقاضے کے وقت معلوم ہوتا ہے کہ انگوٹھی کھو گئی ہے۔

حنیف اپنے خانگی حالات دیکھتے ہوئے از راہ ہمدردی خیال کرتا ہے کہ شاید سعیدہ نے اپنی خواہش سے مجبور ہو کر انگوٹھی رکھ لی ہے۔ کچھ دیر بعد سعیدہ بتاتی ہے کہ انگوٹھی مل گئی ہے۔ حنیف شکر ادا کرتا ہے، اور افسانہ سعیدہ کے اس جملے پر ختم ہو جاتا ہے: “میں کتنی گناہ گار تھی، سوچ رہی تھی، انگوٹھی کہیں آپ نے نہ رکھ لی ہو۔“

موضوع

غیاث ابتدا میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور پھر جدیدیت کا رخ کیا، اس لیے ان کے افسانوں پر ترقی پسندانہ موضوعات کی گہری چھاپ ہے۔ وہ سماجی مسائل، طبقاتی تقسیم اور دیگر تلخ معاشرتی حقائق کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتے ہیں۔ افسانہ دیمک کا موضوع بھی ایک کلرک کے سماجی و خانگی مسائل ہیں۔

نفسیات نگاری

غیاث اس افسانے میں ماہر نفسیات کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ محدود آمدنی میں ایک کلرک کے سوچنے کا انداز کیا ہے؟ روزگار کے مسائل اس کی خانگی زندگی پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں؟ معاش کی تگ و دو اسے جذباتیت سے حقیقت کی طرف کیسے کھینچتی رہتی ہے؟ زندگی کے بارے اس کی فکر کا انداز کیسے اور کیونکر بدلتا ہے؟ وہ ہمہ وقت کن نفسیاتی کشمکشوں سے دوچار رہتا ہے؟ اور اس جیسے دیگر سوالات کی منظر کشی غیاث نے نہایت عمدگی سے کی ہے۔ دوسری طرف غریب و متوسط طبقات کی خانگی خواتین کی محدود فکر اور معصوم خواہشات کی عکاسی ہمیں کلرک کی اہلیہ سعیدہ کے کردار میں ملتی ہے۔

طرزِ بیان

غیاث ایک کہانی کار ہیں، وہ کہانی بتانے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کی علامت نگاری کہانی کو بوجھل نہیں کرتی۔ ان کا مشاہدہ نہایت وسیع ہے۔ وہ کرداروں کی شبیہ ابھارنا اور اسے”وحدت تاثر” کے لیے برتنا بخوبی جانتے ہیں، اور یہی تمام عوامل انھیں ایک منفرد انداز بخشتے ہیں۔

گو “دیمک” قاری کو تادیر اپنے حصار میں جکڑے نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود اپنے موضوع، زبان و بیان، طرزِ ادا کی بدولت ایک کامیاب افسانہ ہے۔‌