افسانہ کالے صاحب کا خلاصہ و تجزیہ

0

اپندر ناتھ اشک معروف ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس تھے، آپ راجندر سنگھ بیدی اور سعادت حسن منٹو کے ہم عصر تھے، افسانہ نویسی میں آپ پر پریم چند کی گہری چھاپ ہے۔

افسانہ کالے صاحب کا خلاصہ

شری واستو نامی ڈپٹی کلکٹر اپنی تعیناتی کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے ملاقات کے لیے بنگلے پر پہنچتا ہے لیکن اسے غیر موجود پا کر اپنے دوست سے ملاقات کا ارادہ کرتا ہے، باہر آ کر سائیکل رکشا سے دس آنے طے کر کے منزل کا پتا بتاتا ہے، رکشا والے سے دورانِ گفتگو معلوم ہوتا ہے کہ تقسیمِ ہند سے قبل وہ کسی انگریز افسر کے ہاں ملازم تھا، رکشا والے گورے صاحبوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے اور ان کے شاہانہ طرزِ زندگی اور دریا دلی میں مدح سرا رہتا ہے۔ شری واستو ان باتوں پر بہت پیچ تاؤ کھاتا ہے مگر خاموش رہتا ہے۔ رکشا والا مقامی افسران اور گورے افسران کا موازنہ جاری رکھتا ہے اور گورے افسران کی فیاضیوں کی تعریف مسلسل کیے جاتا ہے۔ واپسی پر اترتے وقت شری واستو رکشا والے کو اپنی سخاوت دکھانے کے لیے دس آنے کی بجائے دو روپے عنایت کرتا ہے اور اندر چلا جاتا ہے، اس کے جانے پر رکشا والا اپنے ساتھی سے کہتا نظر آتا ہے،”ان کالے صاحبوں سے نبٹنا میں خوب جانتا ہوں۔“

کردار نگاری

اس افسانے میں شری واستو کا کردار ایسے مقامی افسر کا ہے جو احساس کمتری کا شکار ہے اور سماج میں اپنا مرتبہ بلند رکھنے اوردکھانے کے بارے میں خاطر خواہ حساس ہے، دوسری طرف رکشے والے کا کردار شاطر اور چالاک شخص کا ہے جو مقامی افسران کی نفسیاتی کمزوریوں سے واقف ہے اور اپنا مطلب نکلوانا خوب جانتا ہے۔

تجزیہ

١. اشک صاحب مشاہدے کے آدمی ہیں، اپنی دیگر تحاریر کی طرح اس افسانے میں بھی ان کا مشاہدہ بلا کا ہے، وہ ہر طبقے اور قماش کے افراد کی طرز زندگی اور بود و باش بارے جامع معلومات رکھتے ہیں اور اسے پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں، رکشے والوں کی مختلف اقسام اور ان کے طرز زندگی اور طرز فکر کا بیان اس کا مظہر ہے۔

٢. افسانے کی زبان سادہ اور سپاٹ ہے، اندازِ اسلوب سادہ اور رواں ہے اور موضوع کی مناسبت سے تشبیہ و استعارہ اور تراکیب کا استعمال انتہائی کم کیا گیا ہے۔

٣. کسی افسانے کی بنیادی خوبی وحدت تاثر ہے، یعنی واقعہ اس مہارت سے پیش کیا جائے کہ قاری پر شدت سے اپنا تاثر چھوڑے۔ کالے صاحب میں ہمیں اس شدت کی کمی نظر آتی ہے۔ گو یہ ایک کامیاب افسانہ ہے لیکن قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کرنے کی خوبی سے محروم ہے۔

تحریر واصف رحیم