Advertisement
Advertisement

کلام حیدری

محمد کلام الحق حیدری ان کا پورا نام تھا۔ کلام حیدری کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ ان کی پیدائش بہار میں ہوئی۔ ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ “بے نام گلیاں “کے نام سے شائع ہوا۔ ان کے دوسرے افسانوی مجموعوں کے نام ” صفر” ،”الف لام میم”اور “گولڈن جبلی” ہیں۔

Advertisement

خلاصہ

افسانہ ”سخی“ کلام حیدری کا ایک مقبول ترین افسانہ ہے۔ اس میں انہوں نے ایک پڑھے لکھے لیکن بے روزگار شخص کی زندگی کو بیان کیا ہے کہ انسان بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کیسے کیسے قدم اٹھاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔

کہانی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کلکتہ کی مشہور زکریا اسٹریٹ کے ایک گندے اور چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھا ہوا اخبار کے ایڈیٹر کا انتظار کر رہا ہے۔ کیونکہ ایڈیٹر نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے ترجمے کا کام دیگا اور وہ اس سے کچھ ایڈوانس لے لیگا۔ جس کے بعد وہ بھی زکریا اسٹریٹ کے ایسے ہوٹلوں میں کم از کم چند دن کھا پی سکے گا۔

Advertisement

اس کی ٹیبل کے سامنے ایک لمبا سا ٹیبل ہے جس پر بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص کو وہ جانتا ہے وہ شخص جوشطرنجی ڈیزائن کی لنگی پہنے ہوئے ہے اور وہ اسے صرف اس وجہ سے پہچانتا ہے کہ وہ اس سے مہینے میں ایک بار منی آرڈر لکھواتا ہے۔ کبھی پچاس کبھی چالیس اور کبھی سو روپے کا۔ اس کے علاوہ افسانہ نگار کو اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ وہ کہاں رہتا ہے کیا کرتا ہے۔ وہ منی آرڈر اپنی بیوی سکینہ کے لیے پورنیہ بھجواتا ہے اور جب افسانہ نگار اس سے منی آرڈر فارم پر لکھنے کے لیے اس کا پتہ پوچھتا ہے تو اسے وہ اپنا نام مولابخش بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ معرفتی آپ اپنا ہی لکھ دو۔

Advertisement

افسانہ نگار کو ہوٹل میں ایڈیٹر کا انتظار کرتے کرتے کافی وقت گزر گیا ہے اور اب اس کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ دو چار دن ایسے ہی گزار دیے اگر میں محنت کرتا تو کوئی ٹیوشن ہی مل جاتا اور اب میری جیب میں صرف ساڑھے چھ آنے ہیں اور کچھ دیر بعد وہ پانچ رہ جائیں گے اور اس وقت افسانہ نگار اپنی کوٹھری کی ایک چوکی پر پڑا ہوا ہے اور اس کے سراہنے دو تکے ہیں۔

اب وہ سوچتا ہے کہ ایسے بیٹھے رہنے سے بہتر ہے ٹیوشن ہی تلاش کر لیا جائے کچھ سہارا مل جائے گا پھر آرام سے نوکری تلاش کروں گا لیکن پھر افسانہ نگار سوچنے لگتا ہے کہ انگریزی کی جو ڈکشنری پڑی ہے اسے ہی بیچ کر کچھ پیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اسی دوران مولا بخش وہاں آ جاتا ہے۔ اورساٹھ روپے کا منی آرڈر لکھوتا ہے لیکن مولابخش کہتا ہے کہ وہ آج منی آرڈر نہیں کرسکے گا آج اسے مالک نے جلدی بلوایا ہے۔ افسانہ نگار اس سے کہتا ہے کہ اگر تمہیں فرصت نہیں ہے تو میں منی آرڈر بھیج دوں۔ اس کے بعد مولا بخش وہ ساٹھ روپے اور منی آرڈر فارم اسے دے کر چلا جاتا ہے۔

Advertisement

اس کے بعد کہانی کا ہیرو ٹیوشن تلاش کرنے کے لیے نکلتا ہے لیکن شام ہو جاتی ہے اور اسے کوئی ٹینشن نہیں ملتا۔ اب وہ دلکشا ہوٹل میں تو نہیں لیکن ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں بیٹھا ہوا شیر مال کباب وغیرہ کھانے لگتا ہے۔ اور اس نے منی آرڈر کا وہ فارم جو اسے مولابخش نے دیا تھا وہ پہلے ہی سنیما گھر کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیتا ہے۔

کھانا کھا کر اب وہ سڑک پر آ جاتا ہے اور اس کی جیب میں ساٹھ روپے میں سے بائیس روپے کچھ آنے بچتے ہیں۔ اور اس نے سکینہ یعنی مولا بخش کی بیوی کو ابھی تک منی آرڈر نہیں بھیجا۔ اب وہ زکریہ اسٹریٹ کے پاس آ گیا۔ وہاں آ کر وہ ناخدا مسجد کے سامنے ایک اسٹریچر پر لاش کو دیکھتا ہے اور ایک آدمی یہ آواز لگا رہا ہے کہ یہ غریب مر گیا ہے کوئی اس کے لئے کفن دفن کے پیسے دے دو۔ اللہ اس کا بڑا ثواب دے گا۔ اور جب افسانہ نگار اس کے قریب جاتا ہے تو دھنگ رہ جاتا ہے۔ یہ تو مولا بخش ہے!!! افسانہ نگار اس نوجوان سے پوچھتا ہے کہ وہ کیسے مر گیا ہے۔ وہ آدمی اسے بتاتا ہے کہ ایک ٹرک سے کچل کر اس آدمی کی موت ہوگئی اور اب کہانی کا ہیرو جلدی سے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے اور اس کی جیب میں جو بائیس روپے کچھ آنے بچے ہوتے ہیں تو اس کی چادر پر پھینک کر چلا جاتا ہے۔ وہ نوجوان اسے گھور گھورکر دیکھتا ہے کہ اتنے پیسے کیسے اس انسان کو دھے کر چلا گیا۔کیا یہ کوئی سخی ہے جو ایسے اپنے پیسے دے رہا ہے؟؟

اس کہانی کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔

Advertisement

Advertisement