اختر رضا سلیمی | Akhtar Raza Saleemi

0

تعارف

اختر رضا سلیمی ۱٦ جون ۱۹۷۴ کو کیکوٹ ، ہری پور خیبر پختون خوا میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام محمد پرویز اختر تھا۔ جب کہ ان کا قلمی نام اختر رضا سلیمی ہے۔ وہ اردو، ہندکو زبان کے شاعر اور ناول نگار  ہیں۔ اردو قومی زبان اور ہندکو علاقائی زبان ہونے کے ناطے ان کا ان دونوں زبانوں پر گرفت ہے۔ ابتدائی تعلیم ہری پور سے ہی حاصل کی بعد ازیں کراچی گئے، میٹرک کا امتحان پاس کیا اور راولپنڈی میں سکونت اختیار کر لی۔ پنڈی سے کالج میں تعلیم حاصل کی اور اردو میں ایم -اے کیا۔

ناول نگاری

ان کے مشہور زمانہ ناول ”جندر“ کے چند نکات یہ ہیں؛
باہمی انسلاک ہی ناول کو ایک نامیاتی کُل بناتا ہے ، جس سے اختر رضا سلیمی کا یہ دلچسپ ، منفرد اور مکمل ناول ہر طبقے کے قاری کو دعوت مطالعہ دیتا نظر آتا ہے۔
’جندر‘ میں ایک بڑا کردار بابا جمال دین کا ہے۔ باب جمال دین رشتے میں ولی محمد کے والد کے تایا تھے۔ ولی محمد کی پرورش کرنے ، سنبھالنے اور باشعور بنانے میں سب سے اہم کردار جمال دین کا ہے۔ بابا جمال دین جو کم پڑھا لکھا ہونے کے باوجود مطالعے کا شوقین ہے۔ نئی کتابیں پڑھتا ہے ، ولی محمد اور ہاجرہ سے سنتا ہے اور اہم نکات کو ان دو سے سمجھتا بھی ہے۔

ولی محمد کی تنہائی کو دور کرنے اور پھر اُسے مزید تنہا کر دینے میں بڑا ہاتھ اُ سکی بیوی ہاجرہ کا تھا۔ ولی محمد سے بارہ سالہ چھوٹی، اس کے چچا کی بیٹی ہاجرہ جو اپنے بچپن سے اُس کی شریکِ مطالعہ رہی ، میٹرک کر کے مقامی سکول میں ٹیچر ہونے کے باوجود اپنے والدین سے ضد کی کہ وہ ولی محمد سے شادی کرے گی ، کیونکہ اسے بہادر ، آزاد اور بے نیاز انسان پسند تھے ، شادی کے بعد اِس لیے ولی محمد سے بدظن ہو گئی کہ ولی محمد کو جندر کی کُوک کے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔ یہ بات ہاجرہ کے لیے ناقابلِ برداشت تھی کہ اسکے شوہر کی کوئی مجبوری ہو۔

ولی محمد نے اپنی عادت بدلنے اور ہاجرہ کو خوش رکھنے کی کوشش کی تاہم ہاجرہ نے طلاق لیے بغیر اپنے بیٹے راحیل کے ساتھ الگ رہنے میں ہی عافیت جانی۔ اس طرح جندر جسے ولی محمد اذلی رفیق سمجھتا تھا ابدی بھی قرار پایا۔

دراصل ولی محمد کے لیے جندر ایک بے جان مشین نہیں تھی بلکہ ایک جیتا جاگتا ، سانس لیتا، باتیں کرتا وجود تھا ، جس کےاپنے دیہی سماج سے انسلاک نے ایک خاص تہذیب کو جنم دیا تھا جسے وہ جندروئی تہذیب کہتا اور خود کو اُس کا آخری وارث سمجھتا تھا ، بدلتے وقت اور اس کے ساتھ مشینوں کی آمد نے جس کی موت کا سامان کیا تھا۔

اختر رضا سلیمی کے مشہور زمانہ ناول جندر میں مرکزی کردار  ولی محمد کے مطالعے سے دلچسپی ناول نگار کی ناول کی شعریات سے مکمل آگہی اور فن پر عبور کا ثبوت ہے۔ اگر کتابوں کا ذکر ناول سے نکال دیا جائے تو دیہی پس منظر میں لکھے گئے اس ناول کی اکثر باتیں بے جواز ٹھہرتیں ہیں۔

تصانیف

  • ان کی مشہور تصانیف میں
  • جندر،
  • جاگے ہیں خواب میں،
  • خواب دان،
  • خوشبو مرے ساتھ چل پڑی ہے،
  • ارتفاع،
  • اختراع قابلِ ذکر ہیں۔

حرفِ آخر

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اپنی زندگی کی ۳۴ بہاریں دیکھ لینے کے بعد وہ بقید حیات ہمارے درمیان موجود ہیں اور ادب کی خدمات کرنے میں پیش پیش ہیں، خدا ان کو عمر دراز دے۔