رحمن عباس | Rahman Abbas Biography

0

تعارف

اردو ناول نگاری کے حوالے سے رحمٰن عباس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ ’’ تین ناول‘‘ کی اشاعت نے خود ہی یہ فریضہ انجام دیا ہے۔ رحمن عباس ۳۰ جنوری ۱۹۷۴ءکو مہاراشٹر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مہاراشٹر میں ہی حاصل کی۔ اپنے تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے ممبئی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۹۴ میں بی۔ اے، ۱۹۹۶ میں ایم۔ اے (اردو)، ۲۰۰۱ میں بی۔ ایڈ اور ۲۰۰۵  میں ایم۔ اے (انگریزی) اسی یونیورسٹی سے کیا۔

اس کے علاوہ ۲۰۱۲ء میں انھوں نے ’’ مراٹھواڑا یونیورسٹی‘‘ سے ایم۔ ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔ بی۔ ایڈ کے بعد ان کی ملازمت کا آغاز ہوا۔ ۲۰۰۱ء  میں ان کا تقرر ’’مہاراشٹر جونئیر کالج ‘‘میں ہوا۔ ۲۰۰۲ء  میں ’’مستری ہائی اسکول‘‘(رتناگری)میں بہ حیثیت استاد مقر ر ہوئے۔ ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۵ء  تک ’’انجمن اسلام جونئیر کالج‘‘ میں درس وتدریس کی خدمت انجام دی اور ۲۰۰۶ئ  میں ان کا تقرر ’’ایم۔ کے۔ جونئیر کالج، تاراپور‘‘(تھانے )میں ہوا۔

اس کے علاوہ ۲۰۰۷ء  سے ہی ’’اسٹریٹجک فور سائٹ گروپ‘‘ میں ’’ریسرچ آفیسر‘‘ کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔ ان کے ناول عصری زندگی کے عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ قاری کے فکری دریچے بھی کھولتے ہیں۔ ان کی ناول نگاری کا جائزہ لینے سے قبل ان کی سوانح پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ کسی بھی فن کار کو ایک عام انسان سے تخلیق کار بنانے میں اس کی ذاتی زندگی کے علاوہ اس کے ماحول و معاشرے کے واقعات و حادثات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ادبی تعارف

رحمن عباس کے افسانے اور مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انھوں نے ’’آل انڈیا ریڈیو ‘‘کے لئے اردو کے مشہور و معروف شاعروں اور نثرنگاروں کے انٹرویوز لئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے دوردرشن کے لئے بڑے بڑے قلم کاروں کے انٹرویوز کئے ہیں جن میں ندا فاضلی، یوسف ناظم، جاوید اختر، سلام بن رزاق اور سلمیٰ صدیقی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

ان کے تین ناول ’’نخلستان کی تلاش‘‘(۲۰۰۴)، ’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘(۲۰۰۹)اور ’’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘‘(۲۰۱۱)کے عنوان سے شائع ہوئے اور ۲۰۱۳ء  میں ان تین ناولوں کا مجموعہ ’’تین ناول‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ ۲۰۱۱ء میں انھوں نے مراٹھی مفکر’سندیپ واسلیکر‘کی تصنیف ’’یکادشے چاشودھ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’ایک سمت کی تلاش‘‘ کے عنوان سے شرین دلوی کے ساتھ مل کر کیا۔ ۲۰۱۳ء  میں ہی تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ ’’اکیسویں صدی میں اردو ناول اور دیگر مضامین‘‘ کے نام سے شائع ہواجس میں فکشن کے حوالے سے غیر معمولی اور فکر انگیز مضامین شامل ہیں۔

اسلوب

رحمٰن عباس کے ناولوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم بہ آسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے تینوں ناولوں میں عشق ایک نئی شکل میں نظر آتا ہے اور تینوں ناول عصری مسائل کے عکاس بھی ہیں۔ ناول نگار نے قدم قدم پر ایسے سوالات قائم کئے ہیں جن کی متلاشی یہ ساری کائنات ہے۔ رحمن عباس نے اپنے قرب و جوار میں جو دیکھا اور محسوس کیا اسے تخلیق کا جامہ پہنا دیا انھوں نے موضوعات کو کامیابی سے برتنے کی کوشش کی ہے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں لیکن کہیں کہیں ان کے قلم میں لغزش بھی نظر آتی ہے جو ناول کے معیار کو متاثر کرتی ہے۔

ان کے ناولوں کا بہ غور مطالعہ کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ قلم کی یہ لغزش شدت جذبات کی دین ہے کیونکہ اکثر و بیشتر انسان کے خیالات و جذبات اس پر حاوی ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات خیالات کی رو اتنی تیز ہوتی ہے کہ طریقۂ اظہار متاثر ہوتا ہے۔ انسان کی زبان سے ٹوٹے پھوٹے اور بے ربط جملے ادا ہوتے ہیں۔ ناول نگار بھی شاید اس کیفیت سے گزرا ہے جس کے سبب ان ناولوں میں کہیں کہیں کمزور ساخت کے جملے نظر آتے ہیں۔ یہ ذہن میں کھٹکتے تو ہیں لیکن جلد ہی ناول کی سحرآفرینی اور پر تجسس فضا قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔

وہ ادبی دنیا میں جدیدیت کے سخت ترین ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔ اس پہ ان کے خلاف کافی پروپیگنڈے بھی کیے گئے۔لیکن وہ اپنے خیالات کے اظہار میں کسی ملامت اور کسی بدنامی کے خوف کو خاطر میں نہیں لاتے۔

حرفِ آخر

رحمن عباس ہمارے درمیان موجود ہیں اور اردو ادب کی خدمت کررہے ہیں۔ ہماری دعا ہے اردو ادب کا یہ ستارہ تادیر چمکتا رہے۔