سینما کا عشق

0

‘سینما کا عشق’ عنوان تو عجب ہوس حیز ہے لیکن افسوس کہ اس مضمون سے آپ کی تمام توقعات مجروح ہوں گی کیونکہ مجھے تو اس مضمون میں کچھ دل کے داغ دکھانے مقصود ہیں۔

اس سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ مجھے فلموں سے دلچسپی نہیں یا سینما کی موسیقی اور تاریکی میں جو رومان انگیزی ہے میں اس کا قابل نہیں۔ میں تو سنیما کے معاملے میں اوائل عمر ہی سے بزرگوں کا مورد عتاب رہ چکا ہوں، لیکن آج کل ہمارے دوست مرزا صاحب کی مہربانیوں کے طفیل سینما گویا میری ایک دکھتی ہوئی رگ بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں اس کا نام سن پاتا ہوں بعض در انگیز واقعات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس سے رفتہ رفتہ میری فطرت ہی کج بین بن گئی ہے۔

اول تو خدا کے فضل سے ہم سینما کبھی وقت پر نہیں پہنچ سکے۔ اس میں میری سستی کو ذرا دخل نہیں یہ سب قصور ہمارے دوست مرزا صاحب کا ہے جو کہنے کو تو ہمارے دوست ہیں لیکن خدا شاہد ہے کہ ان کی دوستی سےجو جو نقصان ہمیں پہنچے ہیں کسی دشمن کے قبضۂ قدرت سے بھی باہر ہوں گے۔

جب سینما جانے کا ارادہ ہو ہفتہ بھر پہلے سے انہیں کہہ رکھتا ہوں کہ کیوں بھائی مرزا اگلی جمعرات سینما چلو گے نا! میری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے تیار رہیں اور اپنی تمام مصروفیتیں کچھ اس ڈھب سے ترتیب دے لیں کہ جمعرات کے دن ان کے کام میں کوئی حرج واقع نہ ہو۔ لیکن وہ جواب میں عجب قدرشناسی سے فرماتے ہیں:

“ارے بھائی چلیں گے کیوں نہیں؟ کیا ہم انسان نہیں؟ ہمیں تفریح کی ضرورت نہیں ہوتی؟ اور پھر کبھی ہم نے تم سے آج تک ایسی بے مروتی بھی برتی ہے کہ تم نے چلنے کو کہا ہو اور ہم نے تمہارا ساتھ نہ دیا ہو؟”

ان کی تقریر سن کر میں کھسیانا سا ہو جاتا ہوں۔ کچھ دیر چپ رہتا ہوں اور پھر دبی زبان سے کہتا ہوں:

“بھائی اب کے ہوسکا تو وقت پر پہنچیں گے۔ ٹھیک ہے نا!”

میری یہ بات عام طور پر ٹال دی جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کا ضمیر کچھ تھوڑا سا بیدار ہوجاتا ہے۔ خیر میں بھی بہت زور نہیں دیتا صرف ان کو بات سمجھانے کے لیے اتنا کہہ دیتا ہوں:

“کیوں بھائی سینما آج کل چھ بجے شروع ہوتا ہے نا!؟”

مرزا صاحب عجب معصومیت کے انداز میں جواب دیتے ہیں:

“بھائی! یہ ہمیں۔علوم نہیں۔”

“میرا خیال ہے چھ ہی بجے شروع ہوتا ہے”
“اب تمہارے خیال کی تو کوئی سند نہیں”
“نہیں مجھے یقین ہے چھ بجے شروع ہوتا ہے”
“تمہیں یقین ہے تو میرا دماغ کیوں مفت میں چاٹ رہے ہو؟”

اس کے بعد آپ ہی کہئے میں کیا بولوں؟

خیر جناب جمعرات کے دن چار بجے ہی ان کے مکان کو روانہ ہو جاتا ہوں۔ اس خیال سے کہ جلدی جلدی انہیں تیار کرا کے وقت پر پہنچ جائیں۔ دولت خانے پر پہنچتا ہوں تو آدم نہ آدم زاد مردانے کے سب کمروں میں گھوم جاتا ہوں۔ ہر کھڑکی میں سے جھانکتا ہوں۔ ہر شگاف میں سے آواز دیتا ہوں۔ لیکن کہیں سے رسید نہیں ملتی۔ آخر تنگ آ کر ان کے کمرے میں بیٹھ جاتا ہوں۔ وہاں دس پندرہ منٹ سیٹیاں بجاتا رہتا ہوں۔ دس پندرہ منٹ پنسل سے بلاٹنگ پیپر پر تصویریں بناتا رہتا ہوں۔ پھر سگریٹ سلگا لیتا ہوں اور باہر ڈیوڑھی میں نکل کر ادھر ادھر جھانکتا ہوں۔ وہاں بدستور ہوا کا عالم دیکھ کر کمرے میں واپس آ جاتا ہوں اور اخبار پڑھنا شروع کردیتا ہوں۔ ہر کالم کے بعد مرزا صاحب کو ایک آواز دے لیتا ہوں اس امید پر کہ شاید ساتھ کے کمرے میں یا عین اوپر کے کمرے میں تشریف لے آئے ہوں۔سو رہے تھے تو ممکن ہے جاگ اٹھے ہوں یا نہا رہے تھے تو شاید غسل خانے سے باہر نکل آئے ہوں۔ لیکن میری آواز مکان کی وسعتوں میں سے گونج کر واپس آجاتی ہے۔ آخرکار ساڑھے پانچ بجے کے قریب زنا نے سے تشریف لاتے ہیں۔ میں اپنے کھولتے ہوئے خون کو قابو میں لاکر متانت اور اخلاق کو بڑی مشکل سے مدنظر رکھ کر پوچھتا ہوں:

“کیوں حضرت! آپ اندر ہی تھے؟”

“ہاں اندر ہی تھا”
“میری آواز آپ نے نہیں سنی؟”
“اچھا یہ تم تھے؟ میں سمجھا کوئی اور ہے”

آنکھیں بند کر کے سر کو پیچھے ڈال لیتا ہوں اور دانت پیس کر غصے کو پی جاتا ہوں اور پھر کانپتے ہوئے ہونٹوں سے پوچھتا ہوں:

“تو اچھا اب چلیں گے یا نہیں؟”
“وہ کہاں؟”
“ارے بندہ خدا، آج سیم نہیں جانا؟”

“ہاں سینما۔ سینما (یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں) ٹھیک ہے۔ سینما، میں بھی سوچ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ایسی ہے جو مجھے یاد نہیں آ رہی ہے۔ اچھا ہوا تم نے یاد دلادیا ورنہ مجھے رات بھر اوجھل رہتی۔”

“تو چلو پھر اب چلیں؟”

“ہاں وہ تو چلیں گے ہی۔ میں سوچ رہا تھا آج ذرا کپڑے بدل لیتے خدا جانے دھوبی کمبخت کپڑے بھی لایا ہے یا نہیں‌ یار ان دھوبیوں کا تو کوئی انتظام کرو۔”

اگر قتل انسانی ایک سنگین جرم نہ ہوتا تو ایسے موقع پر مجھ سے ضرور سرزد ہوجاتا لیکن کیا کروں اپنی جوانی پر رحم کھا جاتا ہوں۔ بے بس ہوتا ہوں۔ صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ

“مرزا! بھائی لللہ مجھ پر رحم کرو۔ میں سینما چلنے کو آیا ہوں دھوبیوں کا انتظام کرنے نہیں آیا۔ یار بڑے بد تمیز ہو پونے چھ بج چکے ہیں اور تم جون کہ توں بیٹھے ہو۔”

مرزا صاحب عجب مربیانہ تبسم کے ساتھ کرسی پر سے اٹھتے ہیں گویا یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اچھا بھائی تمہاری طفلانہ خواہشات آخر ہم پوری کرہی دیں۔ چنانچہ پھر یہ کہہ کر اندر تشریف لے جاتے ہیں کہ اچھا کپڑے پہن آؤں۔

مرزا صاحب کے کپڑے پہننے کا عمل اس قدر طویل ہے کہ اگر میرا اختیار ہوتا تو قانون کی رو سے انہیں کبھی کپڑے اتارنے ہی نہ دیتا۔ آدھے گھنٹے کے بعد وہ کپڑے پہنے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ ایک پان منہ میں دوسرا ہاتھ میں۔میں بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ دروازے تک پہنچ کر مڑ کے جو دیکھتا ہوں تو مرزا صاحب غائب۔ پھر اندر آجاتا ہوں مرزا صاحب کسی کونے میں کھڑے کچھ کرید کر رہے ہوتے ہیں۔

“ارے بھائی چلو۔”
“چل تو رہا ہوں یار۔ آخر اتنی بھی کیا آفت ہے؟”
“اور یہ تم کر کیا رہے ہو؟”
“پان کے لیے ذرا تمباکو لے رہا تھا”

تمام راستے مرزا صاحب چہل قدمی فرماتے جاتے ہیں۔ میں ہر دو تین لمحے کے بعد اپنے آپ کو ان سے چار پانچ قدم آگے پاتا ہوں۔ کچھ دیر ٹھہر جاتا ہوں وہ ساتھ آملتے ہیں تو پھر چلنا شروع کر دیتا ہوں۔ پھر آگے نکل جاتا ہوں۔ پھر ٹھہر جاتا ہوں۔ غرض یہ کہ گو چلتا دوگنی تگنی رفتار سے ہوں لیکن پہنچتا ان کے ساتھ ہی ہوں۔

ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوتے ہیں تو اندھیرا گھپ۔بہترا آنکھیں جھپکتا ہوں، کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ادھر سے کوئی آواز دیتا ہے “یہ دروازہ بند کر دو جی.” یااللہ اب جاؤں کہاں؟ رستہ، کرسی، دیوار، آدمی کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔ ایک قدم بڑھاتا ہوں تو سران بالٹیوں سے جا ٹکراتا ہے جو آگ بجھانے کے لیے دیوار پر لٹکی رہتی ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقوش دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جہاں ذرا تاریک تر سا دھبہ دکھائی دے جائے وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہوگی۔ خمیدہ پشت ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں اس کے پاؤں کو پھاند، اس کے ٹخنوں کو ٹھکرا، خواتین کے گھٹنوں سے دامن بچا کر آخر کار کسی کی گود میں جا بیٹھتا ہوں۔ وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی مدد سے کسی خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں۔ مرزا صاحب سے کہتا ہوں “میں نہ بکتا تھا کہ جلدی چلو۔” خوامخواہ میں ہم کو رسوا کروایا نا۔ گدھا کہیں کا!” اس شگفتہ بیانی کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ساتھ کی کرسی پر جو حضرت بیٹھے ہیں اور جن کو میں مخاطب کر رہا ہوں وہ مرزا نہیں کوئی اور بزرگ ہیں۔

اب تماشے کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ فلم کون سی ہے؟ اس کی کہانی کیا ہے؟ اور کہاں تک پہنچ چکی ہے؟ سمجھ میں صرف اس قدر آتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت جو پردے پر بغلگیر نظر آتے ہیں ایک دوسرے کو چاہتے ہوں گے۔ اس انتظار میں رہتا ہوں کہ کچھ لکھا ہوا سامنے آئے تو معاملہ کھلے، کہ اتنی دیر میں سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے حضرت ایک وسیع وفراخ انگڑائی لیتے ہیں جس کے دوران میں کم از کم دو تین سو فٹ فلم گزر جاتی ہے۔ جب انگڑائی کو لپیٹ لیتے ہیں تو پھر سر کو کھجانا شروع کردیتے ہیں اور اس عمل کے بعد ہاتھ کو سر سے نہیں ہٹاتے بلکہ بازو کو ویسے ہی خمیدہ رکھے رہتے ہیں۔ میں مجبوراً سر کو نیچا کر کے چائے دانی کے اس دستے کے بیچ میں سے اپنی نظر کے لیے راستہ نکال لیتا ہوں اور اپنے بیٹھنے کے انداز سے بالکل ایسا معلوم ہوتا ہوں کہ جیسے ٹکٹ خریدے بغیر اندر گھس آیا ہوں اور چوروں کی طرح بیٹھا ہوا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد انہیں کرسی کی نشست پر کوئی مچھر یا پسو محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ دائیں طرف سے ذرا اونچے ہو کر بائیں طرف کو جھک جاتے ہیں۔ میں مصیبت کا مارا دوسری طرف جھک جاتا ہوں۔ ایک دو لمحے کے بعد وہی مچھر دوسری طرف ہجرت کرجاتا ہے چنانچہ ہم دونوں پھر سے پنتیرا بدل لیتے ہیں۔ غرض یہ کہ یہ دل لگی یوں ہی جاری رہتی ہے۔ وہ دائیں، تو میں بائیں، وہ بائیں، تو میں دائیں۔ اب ان کو کیا معلوم کہ اندھیرے میں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ دل یہی چاہتا ہے کہ اگلے درجے کا ٹکٹ لے کر ان کے آگے جا بیٹھو‌ں اور کہوں کہ لے بیٹا! دیکھو تو اب تو کیسے فلم دیکھتا ہے؟

پیچھے سے مرزا صاحب کی آواز آتی ہے” یار! تم سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا۔ اب جو ہمیں ساتھ لائے ہو تو فلم تو دیکھنے دو۔”

اس کے بعد غصے میں آ کر آنکھیں بند کرلیتا ہوں اور قتل عمد، خودکشی، زہرخورانی۔ وغیرہ معاملات پرغور کرنے لگتا ہوں۔ دل میں کہتا ہوں ایسی کی تیسی اس فلم کی۔ قسم کھاتا ہوں کہ پھر کبھی نہ آؤں گا اور اگر آیا بھی تو اس کمبخت مرزا سے ذکر تک نہ کروں گا۔پانچ چھے گھنٹے پہلے سے آ جاؤں گا۔ اوپر کے درجے میں سب سے اگلی قطار میں بیٹھوں گا۔ تمام وقت اپنی نشست پر اچھلتا رہوں گا۔ بہت بڑے طرے والی پگڑی پہن کر آؤں گا۔ اپنے اوورکوٹ کو دو چھڑیوں پر پھیلا کر لٹکا دوں گا۔ بہرحال مرزا کے پاس تک نہ بھٹکوں گا۔

لیکن اس کم بخت دل کو کیا کروں؟ اگلے ہفتے پھر کسی اچھی فلم کا اشتہار دیکھ پاتا ہوں تو سب سے پہلے مرزا کے ہاں جاتا ہوں اور گفتگو پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے کہ “کیوں بھائی مرزا! اگلی جمعرات سینما چلو گے نا؟”