مریدپور کا پیر

0

اکثر لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ میں اپنے وطن کا ذکر کبھی نہیں کرتا۔ بعض اس بات پر بھی حیران ہیں کہ میں اب کبھی اپنے وطن کو نہیں جاتا۔ جب کبھی لوگ مجھ سے اسکی وجہ پوچھتے ہیں تو میں ہمیشہ بات ڈال لیتا ہوں۔ لوگوں کو طرح طرح کے شبہات ہونے لگتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے وہاں اس پر ایک مقدمہ بن گیا تھا اس کی وجہ سے روپوش ہے۔ کوئی کہتا ہے وہاں کہیں ملازم تھا، غبن کا الزام لگا، ہجرت کرتے ہی بنی۔ کوئی کہتا ہے والد اس کی بدعنوانیوں کی وجہ سے گھر میں نہیں گھسنے دیتے۔ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ آج میں ان سب غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے والا ہوں خدا آپ پڑھنے والوں کو انصاف کی توفیق دے۔

قصہ میرے بھتیجے سے شروع ہوتا ہے۔ میرا بھتیجا یوں دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں۔ میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ نئی پود سے تعلق رکھنے کے باعث اس میں بعض فالتو اوصاف نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہ ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے اور میں تو اس کے نزدیک بس علم وفن کا ایک دیوتا ہوں۔ یہ خبط اس کے دماغ میں کیوں سمایا ہے اس کی وجہ میں یہی بتا سکتا ہوں کہ نہایت اعلی سے اعلی خاندانوں میں بھی کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آجاتا ہے۔ میں شائستہ سے شائستہ ودوانوں کے فرزندوں کو بعض وقت بزرگوں کا اس قدر احترام کرتے دیکھا ہے کہ ان پر نیچ ذات کا دھوکا ہونے لگتاہے۔

ایک سال میں کانگریس کے جلسے میں چلا گیا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کانگریس کا جلسہ میرے پاس چلا آیا۔ مطلب یہ کہ جس سے شہر میں میں موجود تھا وہیں کانگریس والوں نے بھی اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی۔ میں پہلے بھی اکثر جگہ اعلان کرچکا ہوں اور اب بھی کہنے کو تیار ہوں کہ اس میں میرا ذرا بھی قصور نہ تھا۔ بعض لوگوں کو یہ شک ہے کہ میں نے محض اپنی تسکین نخوت کے لیے کانگریس کا جلسہ اپنے پاس ہی کرالیا لیکن یہ محض حاسدوں کی بدطینتی ہے۔ بھانڈوں کو میں نے اکثر شہر میں بلوالیا ہے۔ دو ایک مرتبہ بعض تھیٹروں کو بھی دعوت دی ہے لیکن کانگریس کے مقابلے میں میرا رویہ ہمیشہ ایک گمنام شہری کا سا رہا ہے۔ بس اس سے زیادہ میں اس موضوع پر کچھ نہ کہوں گا۔

جب کانگریس کا سالانہ جلسہ بغل میں ہو رہا ہو تو کون ایسا متقی ہوگا جو وہاں جانے سے گریز کرے۔ زمانہ بھی تعطیلات اور فرصت کا تھا، چنانچہ میں نے مشغل بیکاری کے طور پر اس جلسے کی ایک ایک تقریر سنی۔ دن بھر تو جلسے میں رہتا اور رات کو گھر آکر اس دن کے مختصر سے حالات اپنے بھتیجے کو لکھ بھیجتا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔

بعد کے اوقات سے معلوم ہوتا ہے کہ بھتیجے صاحب میرے ہر خط کو بے حد ادب و احترام کے ساتھ کھولتے، بلکہ بعض بعض باتوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس افتتاحی تقریب سے بیشتر وہ باقاعدہ وضو بھی کرلیتے۔ خط کو خود پڑھتے، پھر دوستوں کو سناتے، پھر اخباروں کے ایجنٹ کی دوکان پر مقام لال بجھکڑوں کے حلقے میں اس کو خوب بڑھا چڑھا کر دہراتے۔ پھر مقامی اخبار کے بے حد مقامی آڈیٹر کے حوالے کر دیتے جو اسے بڑے اہتمام کے ساتھ چھاپ دیتا۔ اس اخبار کا نام “مریدپور گزٹ” ہے۔ اس کا مکمل فائل کسی کے پاس موجود نہیں یہ دو مہینے تک جاری رہا۔ پھر بعض مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہو گیا۔ ایڈیٹر صاحب کا حلیہ حسب ذیل ہے۔ رنگ گندمی، گفتگو فلسفیانہ، شکل سے چور معلوم ہوتے ہیں۔ صاحب کو ان کا پتہ معلوم ہو تو مریدپور کی خلافت کمیٹی کو اطلاع پنجادیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔ نیز کوئی صاحب ان کو ہرگز ہرگز کوئی چندہ نہ دیں ورنہ خلافت کمیٹی ذمہ دارنہ ہوگی۔

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس اخبار نے میرے ان خطوط کے بل پر اپنا ایک اپنا ایک کانگریس نمبر بھی نکال مارا، جو اتنی بڑی تعداد میں چھپا کہ اس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکان پر نظر آتے ہیں بہرحال مریدپور کے بچے بچے نے میری قابلیت انشاء پردازی صحیح الدماغی اور جوش قومی کی داد دی۔ میری اجازت اور میرے علم کے بغیر مجھ مریدپور کا قومی لیڈر قرار دیا گیا ایک دو شاعروں نے مجھ پر نظمیں بھی لکھیں جو وقتاً فوقتاً مریدپور کی گزٹ میں چھپتی رہیں۔

میں اپنی اس عزت افزائی سے محض بےخبر تھا۔ سچ ہے کہ خدا جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ میں نے اپنے بھتیجے کو محض چند خطوط لکھ کر اپنے ہم وطنوں کے دل میں اس قدر گھر کرلیا ہے اور کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ معمولی سا انسان جو ہر روز چپ چاپ سر نیچا کئے بازار سے گزر جاتا ہے، مرید پور میں پوجا جاتا ہے۔ میں وہ خطوط لکھنے کے بعد کانگریس اور اس کے تمام متعلقات کو قطعاً فراموش کر چکا تھا۔ مریدپور گزٹ کا میں خریدار نہ تھا۔ بھتیجے نے میری بزرگی کے رعب کی وجہ سے کبھی برسبیل تذکرہ اتنا بھی نہ لکھ بھیجا کہ آپ لیڈر ہوگئے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے یوں کہتا تو برسوں تک اس کی بات میری سمجھ میں نہ آتی لیکن بہرحال مجھے کچھ تو معلوم ہوتا کہ میں ترقی کرکے کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہوں۔

کچھ عرصے بعد خون کی خرابی کی وجہ سے ملک میں جب جا جلسے نکل آئے۔ جس کسی کو ایک میز ایک کرسی اور ایک گلدان میں میسر آیا اسی نے جلسے کا اعلان کردیا۔ جلسوں کے اس موسم میں ایک دن مریدپور کی انجمن نوجوانان ہند کی طرف سے میرے نام اس مضمون کا ایک خط موصول ہوا کہ آپ کے شہر کے لوگ آپ کے دیدار کے منتظر ہیں ہر کہ” آپ کے شہر کے لوگ آپ کے دیدار کے منتظر ہیں۔ ہر کہ ومہ آپ کے روئے انور کو دیکھنے اورآپ کے پاکیزہ خیالات سے مستفید ہونے کے لیے بے تاب ہیں۔ مانا ملک بھر کو آپ کی ذات بابرکات کی ازحد ضرورت ہے، لیکن وطن کا حق سب سے زیادہ ہے کیونکہ خار وطن از سنبل و ریحان خوشتر۔۔۔۔ اسی طرح کی تین چار اہین قاطع کے بعد مجھ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ آپ یہاں آکر لوگوں کو ہندومسلم اتحاد کی تلقین کریں۔”

خط پڑھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی لیکن جب ٹھنڈے دل سے اس پر غور کیا تو رفتہ رفتہ باشندگان مریدپور کی مردم شناسی کا قائل ہو گیا۔

میں کمزور انسان ہوں اور پھر لیڈری کا نشہ ایک لمحے ہی میں چڑھ جاتا ہے۔ اس ایک لمحے کے اندر مجھے اپنا وطن بہت ہی پیارا معلوم ہونے لگا۔ اہل وطن کی بےحسی پر بڑا ترس آیا۔ ایک آواز نے کہا کہ ان بیچاروں کی بہبودی اور رہنمائی کا ذمہ دار تو ہی ہے۔ تجھے خدا نے تدبر کی قوت بخشی ہے۔ ہزارہا انسان تیرے منتظر ہیں۔ اُٹھ کہ سینکڑوں لوگ تیرے لیے ماحضر لئے بیٹھے ہوں گے۔ چنانچہ میں نے مریدپور کی دعوت قبول کرلی اور لیڈرانہ انداز میں بذریعہ تار اطلاع دی کہ پندرہ دن کے بعد فلاں ٹرین سے مریدپور پہنچ جاؤں گا۔ اسٹیشن پر کوئی شخص نہ آئے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ اپنے اپنے کام میں مصروف رہے۔ ہندوستان کو اس وقت عمل کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد جلسے کے دن تک میں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی ہونے والی تقریر کی تیاری میں صرف کردیا۔ طرح طرح کے فقرے دماغ میں صبح وشام پھرتے رہے۔
“ہندو اور مسلم بھائی بھائی ہیں”
“ہندو اور مسلم شیر و شکر ہیں”
“ہندوستان کی گاڑی کے دو پہیے۔اے میرے دوستو! ہندو اور مسلمان ہی تو ہیں”
“جن قوموں نے اتفاق کی رسی کو مضبوط پکڑا وہ اس وقت تہذیب کے نصف النہار پر ہیں۔ جنہوں نے نفاق اور پھوٹ کی طرف رجوع کیا تاریخ نے ان کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں وغیرہ وغیرہ”

بچپن کے زمانے میں کسی درسی کتاب میں سنا ہے کہ “دو بیل رہتے تھے ایک جا” والا واقعہ پڑھا تھا۔ اسے نکال کر نئے سرے سے پڑھا اور اس کی تمام تفصیلات کو نوٹ کرلیا۔ پھر یاد آیا کہ ایک اور کہانی بھی پڑھی تھی جس میں ایک شخص مرتے وقت اپنے تمام لڑکوں کو بلا کر لکڑیوں کا ایک گٹھا ان کے سامنے رکھ دیتا ہے اور ان سے کہتا کہ اس گٹھے کو توڑو۔ وہ توڑ نہیں سکے۔ پھر اس گٹھے کو کھول کر ایک ایک لکڑی ان سب کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جسے وہ آسانی سے توڑ لیتے ہیں۔ اس طرح وہ اتفاق کا سبق اپنی اولاد کے ذہن نشین کرتا ہے۔ اس کہانی کو بھی لکھ لیا۔ تقریر کا آغاز سوچا تو کچھ اس طرح کی تمہید مناسب معلوم ہوئی کہ:
“پیارے ہم وطنو!
گھٹا سر پہ ادبار کی چھا رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے
یہ چاروں طرف سے ندا آ رہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
ہندوستان کے جس مایۂ ناز شاعر یعنی مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی نے آج سے کئی برس پیشتر یہ اشعار قلمبند کئے تھے، اس کو کیا معلوم تھا کہ جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا اس کے المناک الفاظ روزبروز صحیح تر ہوتے جائیں گے۔ آج ہندوستان کی یہ حالت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ”

اس کے بعد سوچا کہ ہندوستان کی حالت کا ایک دردناک نقشہ کھینچوں گا۔ افلاس، غربت، بغض وغیرہ کی طرف اشارہ کروں گا اور پھر پوچھوں گا کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟ ان تمام وجوہ کو دہراؤں گا، جو لوگ اکثر بیان کرتے ہیں مثلاً غیر ملکی حکومت، آب و ہوا، مغربی تہذیب لیکن ان سب کو باری باری غلط قرار دوں گا اور پھر اصل وجہ بتاؤں گا کہ اصل وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا نفاق ہے۔ آخر میں اتحاد کی نصیحت کروں گا اور تقریر کو اس شعر پر ختم کروں گا؀

آعندلیب مل کے کریں اہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

دس بارہ دن اچھی طرح غور کرلینے کے بعد میں نے اس تقریر کا ایک خاکہ سا بنا لیا اور اس کو ایک کاغذ پر نوٹ کرلیا تھا کہ جلسے میں اسے اپنے سامنے رکھ سکوں۔وہ خاکہ کچھ اس طرح کا تھا:
١۔تمہید: (اشعارحالی بلند اور دردناک آواز سے پڑھو)
٢۔ہندوستان کی موجودہ حالت
الف) افلاس
ب) بغض
ج) قومی رہنماؤں کی خود غرضی
٣۔اس کی وجہ
کیا غیر ملکی حکومت ہے؟ نہیں
کیا آب و ہوا ہے؟ نہیں
کیا مغربی تہذیب ہے؟ نہیں
تو پھر کیا ہے؟(وقفہ جس کے دوران میں مسکراتے ہوئے تمام حاضرین جلسہ پر ایک نظر ڈالو)
٤۔ پھر بتاؤ کہ وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا نفاق ہے۔ (نعروں کے لئے وقفہ) اس کا نقشہ کھینچو۔ فسادات وغیرہ کا ذکر رقت انگیز آواز میں کرو۔
(اس کے بعد شاید پھر چند نعرے بلند ہو اس کے لیے ذرا ٹھہر جاؤ)
٥۔ خاتمہ۔ عام نصائح۔ خصوصاََ اتحاد کی تلقین (شعر)
(اس کے بعد انکسار کے انداز میں جاکر اپنی کرسی پر بیٹھ جاؤ اور لوگوں کی داد کے جواب میں ایک ایک لمحے کے بعد حاضرین کو سلام کرتے رہو)
اس خاکے کو تیار کر چکنے کے بعد جلسے کے دن تک ہر روز اس پر ایک نظر ڈالتا رہا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بعض معرکہ آرا فقروں کی مشق کرتا رہا۔ ٣؀ کے بعد کی مسکراہٹ کی خاص مشق بہم پہنچائی۔ کھڑے ہو کر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں گھومنے کی عادت ڈالی تاکہ تقریر کے دوران آواز سب طرف پہنچ سکے اور سب لوگ اطمینان کے ساتھ ایک ایک لفظ سن لیں۔

مریدپور کا سفر آٹھ گھنٹے کا تھا۔ رستے میں سانگا کے اسٹیشن پر گاڑی بدلنی پڑتی تھی۔ انجمن نوجوانان ہند کے بعض ارکان وہاں استقبال کو آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہار پہنائے اور کچھ پھل وغیرہ کھانے کو دیئے۔ سانگا سے مریدپور تک ان کے ساتھ اہم سیاسی مسائل پر بحث کرتا رہا۔ جب گاڑی مریدپور پہنچی تو اسٹیشن کے باہر کم از کم تین ہزار آدمیوں کا ہجوم تھا جو متواتر نعرے لگا رہا تھا۔ میرے ساتھ جو والنٹیئر تھے انہوں نے کہا سر باہر نکالیے لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ ہار میرے گلے میں تھے ایک سنگترہ میرے ہاتھ میں تھا۔ مجھے دیکھا تو لوگ اور بھی جوش کے ساتھ نعرہ زن ہوئے۔ بمشکل تمام باہر نکلا۔ موٹر میں مجھے سوار کرایاگیا اور جلوس جلسہ گاہ کی طرف چلا۔

جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو ہجوم پانچ ہزار تک پہنچ چکا تھا جو ایک آواز ہو کر میرا نام لے لے کر نعرہ لگا رہا تھا۔ دائیں بائیں سرخ سرخ جھنڈوں پر مجھ خاکسار کی تعریف میں چند کلمات درس تھے۔ مثلاً “ہندوستان کی نجات تمہیں سے ہے” “مریدپور کے فرزند خوش آمدید” “ہندوستان کو اس وقت عمل کی ضرورت ہے”

مجھ کو اسٹیج پر بٹھایا گیا۔ صدر جلسہ نے لوگوں کے سامنے مجھ سے دوبارہ مصافحہ کیا اور میرے ہاتھ کو بوسہ دیا اور پھر اپنی تعارفی تقریر یوں شروع کی۔

“حضرات! ہندوستان کے جس نامی اور بلند لیڈر کو آج کے جلسے میں تقریر کرنے کے لیے بلایا گیا ہے……..”

تقریر کا لفظ سن کر میں نے اپنی تقریر کے تمہیدی فقروں کو یاد کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت ذہن اس قدر مختلف تاثرات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا کہ نوٹ دیکھنے کی ضرورت پڑی۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو نوٹس ندارید۔ ہاتھ پاؤں میں یکلخت خفیف سی خنکی محسوس ہوئی۔ دل کو سنبھالا کہ ٹھہرو ابھی اور کہیں جیبیں ہیں۔ گھبراؤ نہیں۔ رعشے کے عالم میں سب جیبیں دیکھ ڈالیں لیکن وہ کاغذ کہیں نہ ملا۔ تمام ہال آنکھوں کے سامنے چکر کھانے لگا۔ دل زور زور سے دھڑکنا شروع کردیا، ہونٹ خشک ہوتے محسوس ہوئے۔ دس بارہ دفعہ تمام جیبوں کو ٹٹولا لیکن کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔ جی چاہا زور زور سے رونا شروع کردوں۔ بے بسی کے عالم میں ہونٹ کاٹنے لگا۔ صدر جلسہ اپنی تقریر برابر کر رہے تھے:
“مریدپور کا شہر ان پر جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔ہر صدی اور ہر ملک میں صرف چند ہی آدمی ایسے پیدا ہوتے ہیں جن کی ذات نوع انسان کے لئے…….”

خدایا! اب میں کیا کروں گا۔ ایک تو ہندوستان کی حالت کا نقشہ کھینچنا ہے۔ نہیں اس سے پہلے یہ بتانا ہے کہ ہم کتنے نا لائق ہیں۔ نا لائق کا لفظ غیر موضوع ہوگا۔ جاھل کہنا چاہیے۔ یہ بھی ٹھیک نہیں، غیر مذہب۔

“…..ان کی اعلی سیاست دانی، ان کا قومی جوش اور مخلصانہ ہمدردی سے کون واقف نہیں۔ یہ سب باتیں تو خیر آپ جانتے ہیں لیکن تقریر کرنے میں جو ملکہ ان کو حاصل ہے۔۔۔۔۔۔۔”

ہاں وہ تقریر کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ہندومسلم اتحاد پر تقریر، چند نصیحتیں ضرور کرنی ہیں لیکن وہ تو آخر میں ہیں۔ وہ بیچ میں مسکرانا کہاں تھا؟

“میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے دل ہلا دیں گے اور آپ کو خون کے آنسو رو لائیں گے……”

صدر جلسہ کی آواز نعروں میں ڈوب گئی۔ دنیا میری آنکھوں کے سامنے تاریک ہو رہی تھی۔ اتنے میں صدر نے مجھ سے کہا۔ مجھے الفاظ بالکل سنائی نہ دیے۔ اتنا محسوس ہوا کہ تقریر کا وقت سر پر آن پہنچا ہے اور مجھے اپنی نشست پر سے اٹھنا ہے۔ چنانچہ ایک نامعلوم طاقت کے زیر اثر اٹھا، کچھ لڑکھڑایا لیکن پھر سنبھل گیا۔میرا ہاتھ کانپ رہا تھا، ہال میں ایک شور تھا۔ میں بے ہوشی سے ذرا ہی ورے تھا اور نعروں کی گونج ان لہروں کے شور کی طرح سنائی دے رہی تھی جو ڈوبتے ہوئے انسان کے سر پر سے گزر رہی ہوں۔ تقریر شروع کہاں سے ہوتی ہے؟ لیڈروں کی خودغرضی بھی ضرور بیان کرنی ہے اور کیا کہنا ہے؟ ایک کہانی بھی تھی “بگلے اور لومڑی کی کہانی” نہیں ٹھیک ہے دو بیل۔۔۔۔۔”

اتنے میں ہال میں سناٹا چھا گیا۔ سب لوگ میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سہارے کے لیے میز کو پکڑ لیا میرا دوسرا ہاتھ بھی کانپ رہا تھا۔ وہ بھی میں نے میز پر رکھ دیا اس وقت ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے میز بھاگنے کو ہے اور میں اسے روکے کھڑا ہوں۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور مسکرانے کی کوشش کی۔ گلا خشک تھا۔ بڑی مشکل سے میں نے یہ کہا کہ

“پیارے ہم وطنو!”

آواز خلاف توقع بہت ہی باریک اور منحنی سی نکلی۔ ایک دو شخص ہنس دیئے۔ میں نے گلے کو صاف کیا تو کچھ اور لوگ ہنس پڑے۔ میں نے جی کڑا کرکے زور سے بولنا شروع کیا۔ پھیپھڑوں پر یک لخت جو یوں زور ڈالا تو آواز بہت ہی بلند نکل آئی۔ اس پر بہت سے لوگ کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ ہنسی تھمی تو میں نے کہا:

“پیارے ہم وطنو!”
اس کے بعد ذرا دم لیا اور پھر کہا کہ
“پیارے ہم وطنو!”
کچھ یاد نہ آیا کہ اس کے بعد کیا کہنا ہے۔ بیسوں باتیں دماغ میں چکر لگا رہی تھیں لیکن زبان تک ایک نہ آتی تھی۔
“پیارے ہم وطنو!”

اب کے لوگوں کی ہنسی سے میں بھنا گیا۔ اپنی توہین پر بڑا غصہ آیا۔ ارادہ کیا کہ اس دفعہ جو منہ میں آیا کہہ دوں گا ایک دفعہ تقریر شروع کردوں تو پھر کوئی مشکل نہ رہے گی۔

“پیارے ہم وطنو! بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی آب و ہوا خراب ہے یعنی ایسی ہے کہ ہندوستان میں بہت سے نقص ہیں….. سمجھے آپ؟ (وقفہ) نقص ہیں، لیکن یہ بات یعنی امر جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے گویا چنداں صحیح نہیں۔”(قہقہہ)

حواس معطل ہو رہے تھے سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر تقریر کا سلسلہ کیا تھا۔ یک لخت بیلوں کی کہانی یاد آئی اور راستہ کچھ صاف ہوتا دکھائی دیا۔

“ہاں تو یہ بات دراصل یہ ہے کہ ایک جگہ دو بیل اکٹھے رہتے تھے جو باوجود آب و ہوا اور غیر ملکی حکومت کے”(زور کا قہقہ)

یہاں تک پہنچ کر محسوس کیا کہ کلام کچھ بےربط سا ہو رہا ہے میں نے سوچا چلو وہ لکڑی کے گٹھے کی کہانی شروع کردیں۔

“مثلاً آپ لکڑیوں کے ایک گھٹے کو لیجیے۔ لکڑیاں اکثر مہنگی ملتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں افلاس بہت ہے۔ کیونکہ اکثر لوگ غریب ہیں اس لئے گویا لکڑیوں کا گٹھر یعنی آپ دیکھیے نا کہ اگر”
(بلند اور طویل قہقہہ)

“حضرات! اگر آپ نے عقل سے کام نہ لیا تو آپ کی قوم فنا ہو جائے گی۔ نحوست منڈلا رہی ہے۔”(قہقہے اور شور غوغا۔۔۔۔۔۔ اسے باہر نکالو۔ ہم نہیں سنتے۔)

شیخ سعدی نے کہا ہے کہ

چوازقومےیکےبےدانشی کرد
(آواز آئی کیا بکتا ہے) خیر اس بات کو جانے دے دیجئے۔ بہرحال اس بات میں تو کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا کہ

آعندلیب مل کے کریں اہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے گل
اس شعر نے دورانِ خون کو تیز کردیا۔ ساتھ ہی لوگوں کا شور بھی بہت زیادہ ہوگیا۔ چنانچہ میں بڑے جوش سے بولنے لگا:

“جو قوم اس وقت بیداری کے آسمان پر چڑھی ہوئی ہیں ان کی زندگیاں لوگوں کے لیے شاہراہ ہیں اور ان کی حکومتیں چار دانگ عالم کی بنیادیں ہلا رہی ہیں۔ (لوگوں کا شور اور ہنسی اور بھی بڑھتی گئی) آپ کے لیڈروں کے کانوں پر خود غرضی کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ زندگی کے وہ تمام شعبے……”

لیکن لوگوں کا غوغا اور قہقہے کے اتنے بلند ہوگئے کہ میں اپنی آواز بھی نہ سن سکتا تھا۔ اکثر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کچھ کہہ رہے تھے۔ میں سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا۔ ہجوم میں سے کسی شخص نے بارش کے پہلے قطرے کی طرح ہمت کرکے سگریٹ کی ایک خالی ڈبیا مجھ پر پھینک دی۔ اس کے بعد چار پانچ کاغذ کی گولیاں میرے اردگرد اسٹیج پر آگریں لیکن میں نے اپنی تقریر کا سلسلہ جاری رکھا۔

“حضرات! تم یاد رکھو۔ تم تباہ ہوجاؤ گے۔”
“تم دو بیل ہو….”

لیکن جب بوچھاڑ بڑھتی ہی گئی تو میں نے اس نامعقول مجمع سے کنارہ کشی ہی مناسب سمجھی۔ اسٹیج سے پھلانگا اور زقند بھر کے دروازے سے باہر کا رخ کیا‌۔ ہجوم بھی میرے پیچھے لپکا میں نے مڑ کر پیچھے نہ دیکھا بلکہ سیدھا بھاگتا گیا۔ وقتاً فوقتاً بعض نامناسب کلمے میرے کانوں تک پہنچ رہے تھے۔ ان کو سن کر میں نے اپنی رفتار اور بھی تیز کردی اور سیدھا اسٹیشن کا رخ کیا۔ ایک ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑی تھی۔ میں بے تحاشہ اس میں گھس گیا۔ ایک لمحے کے بعد ٹرین وہاں سے چل دی۔

اس دن کے بعد آج تک نہ مریدپور نے مجھے مدعو کیا ہے نہ مجھے خود وہاں جانے کی کبھی خواہش پیدا ہوئی ہے۔