سویرے جو کل آنکھ میری کھلی

0

گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے، ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کر بیٹھے کہ” لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں۔ آپ سحر خیز ہیں ذرا ہمیں بھی صبح جگہ دیا کیجیے۔”

وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے کہ نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اٹھتے ہی انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کر دی۔ کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر جاگیں گے تو لاحول پڑھ لیں گے۔ لیکن یہ گولہ باری لمحہ لمحہ تیز ہوتی گئی اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگی، صراحی پر رکھا ہوا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کلینڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آباؤاجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اٹھی ہوگی بہترا آوازیں دیتا ہوں۔

“اچھا… اچھا….! تھینک یو!……جاگ گیا ہوں….. بہت اچھا! نوازش ہے” آنجناب ہین کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلارہے ہیں؟ اور حضرت عیسیٰ بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں “کم” کہہ دیا کرتے تھے۔ زندہ ہوگیا تو ہو گیا نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جایا کرتے تھے؟ تو پیش تھوڑی داغا کرتے تھے؟ تو ہم سے بھلا کیسے ہو سکتا تھا کہ اٹھ کر دروازے کی چھٹیاں کھول دیتے؟ بیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے، اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئے تو طوفان تھما۔

اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں کہ جگمگا رہے ہیں۔ سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے کہ یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی تو فکر سا لگ گیا کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟کچھ سمجھ میں نہ آیا تو پڑوسی کو آواز دی:

“لالہ جی!… لالہ جی!”
جواب آیا “ہوں”
میں نے کہا “آج یہ کیا بات ہے کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟”
کہنے لگے “تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے”؟
تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے۔ چونک کر پوچھا” کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں؟”

کہنے لگے “تین…. تو نہیں……کچھ سات ساڑھے سات…. منٹ اوپر تین ہیں۔”

میں نے کہا “ارے کمبخت! خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے۔ میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگہ دینا یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا۔ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اُٹھ سکا کرتے تو اس وقت ہم دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے، تین بجے اٹھ کر ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیر زادے ہیں کوئی مذاق ہے۔لاحول ولاقوۃ۔”

دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد و شدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سوگئے۔

اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اُٹھے۔ بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔

شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمرےمیں داخل ہوئے کہ
بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی مسٹر!”
ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔ ارشاد ہوا” یہ آپ گا رہے ہیں؟”(زور ‘آپ’پر)

میں نے کہا”اجی میں کس لائق ہوں لیکن خیر فرمائے۔”
بولے”ذرا۔۔۔۔ وہ میں۔۔۔۔ میں ڈسٹرب ہو تا ہوں”

بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی فوراً مر گئی۔ دل نے کہا ” او نابکار انسان۔ دیکھ! پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں۔” صاحب خدا کے حضور میں گڑگڑا کر دعا مانگی کہ “خدا یا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے”

آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے۔ دانت بھینچ لئے۔ نکٹائی کھول دی۔ آستینیں چڑھا لیں لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ، سبز، زرد سبھی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کون سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔

بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیٰحدہ کر رکھ دیا چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا۔ پھر پندرہ اپریل تک کے دن گنے، صفوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا۔ لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کے صبح تین بجے کیوں نہ اٹھ بیٹھیں۔ لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا تو فوراً اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اٹھنا تو لغو بات ہے۔ البتہ پانچ، چھے، سات بجے کے قریب اٹھنا نہایت معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرما و ہم ثواب۔

یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اُٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہیئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے بستر میں داخل ہوگئے۔

چلتے چلتے خیال آیا کہ لالہ جی سے جگانے کے لیے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے۔ جب چاہیں اُٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے ڈرتے ڈرتے آواز دی۔”لالہ جی!”

انہوں نے پتھر کھینچ مارا “بس!”

ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں۔ تتلا کے درخواست کی کہ” لالہ جی صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھے بجے یعنی جس وقت چھے بجیں۔۔۔۔۔”
جواب ندارد۔

میں نے پھر کہا”جب چھ بج چکیں تو۔۔۔۔۔ سنا آپ نے؟”
چپ
“لالہ جی”
کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا”سن لیا۔ سن لیا۔ 6بجے جگا دوں گا تھری گاما پلس فور ایلفا پلس….”

ہم نے کہا”ب ب ب بہت اچھا۔ یہ بات ہے”
توبہ۔ خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔

لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازے پر گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا میں نے ان کا شکریہ ادا کیا انہوں نے اسے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کردی۔

اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلاف ہے۔ بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمہ شہادت پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اُٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا شاید سر اس میں لپیٹ دیا یا شاید کھانسا کہ خدا جانے خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقینی امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے بیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے۔ یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے۔ یا شاید سو رہے ہوں۔ بہر صورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔ کیا پتہ لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو یا اس دن چھے دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو کہ محض اس شعبہ کی بنا پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی نے ہنس ہنس کر باتیں کیں۔ ان کا شکریہ ادا کیا اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی نہ ہو۔ حد درجہ کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانہ اور روح افزا وقت بھی بہت اچھی طرح صرف کیا،ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اٹھتا۔ “لالہ جی صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فوراً یاد ہو جاتا ہے۔ بھائی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے۔ یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا”

لالہ جی نے ہماری اس جادو بیانی کی دادی ودی کے آپ پوچھنے لگے”تو میں آپ کو چھ بجے جگا دیا کرو نا؟”

میں نے کہا “ہاں ہاں۔ واہ! یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بےشک”

شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے لیے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں۔ کرسی کو چارپائی کے قریب سرکالیا اور ور کوٹ اور گلوبند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کر دیا، کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ لیے، دیاسلائی کو تکیئے کے نیچے ٹٹولا، تین دفعہ آیت الکرسی پڑھی اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سوگیا۔

صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی۔ نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو ‘گڈ مارننگ’کیا اور نہایت بیدارانہ لہجے میں کھانسا۔ لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔

ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا۔ آج ہم فوراً ہی جاگ اٹھے۔ دل سے کہا کہ “دل بھیا! صبح اٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے۔ ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے۔” دل نے کہا “اور کیا۔ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہو جایا کرتے ہیں۔” ہم نے کہا “سچ کہتے ہو یار۔ یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت اس لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیا و ما فیہا سے بےخبر نیند کے مزے اڑاتے ہوں گے اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتہ طبی اور غنچہ ذہنی سے جاگ رہے ہیں۔ بھائی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔”ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یوں ہی لحاف کی اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔۔ “خوب! تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں۔ بس ذرا اس کی عادت ہو جائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے۔ ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں۔ نہ خدا کا ڈر نہ رسولﷺ کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کر لیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مر گیا، لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔۔۔”(لحاف کانوں پر سرک آیا)….”تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں….. بہت ہی پہلے….. یعنی کالج شروع ہونے سے بھی 4 گھنٹے پہلے….. کیا بات ہے! خداوند، کالج والے بھی کس قدر سست ہیں۔ہر ایک مستعد انسان کو چھے بجے تک قطعی جاگ اٹھنا چاہیے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔۔”(لحاف سر پر)….”بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلیٰ قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے عیش پسندی روز بروز بڑھتی جاتی ہے…….”(آنکھیں بند)..”…تو اب چھ بجے ہیں۔ تو گویا تین گھنٹے متواتر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کونسی کتاب پڑھیں۔شیکسپیئر یا ورڈزورتھ؟میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہوگا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور صبح کے وقت اللہ میاں کی یاد سے بہتر اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔” پھر خیال آیا کہ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون و اطمینان میسر ہوگا اور دل و دماغ نیچر کی خاموش دلاویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے….. لیکن شیکسپیئر…… نہیں ورڈزورتھ ہی ٹھیک رہے گا…… شیکسپیئر۔۔۔۔ہیملٹ۔۔۔۔۔لیکن ورڈزورتھ۔۔۔۔۔لیڈی میکبتھ۔۔۔۔دیوانگی۔۔۔۔۔سبزازار۔۔۔‌‌ سنجر سنجر۔۔۔۔باد بہاری۔۔۔۔صید ہوس۔۔۔‌‌ کشمیر۔۔۔۔میں آفت کاپرکالہ ہوں۔۔۔۔۔

یہ معما اب فلسفہ مابعد الطبعیات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے اس میں نہ معلوم کیا بھید ہے!

کالج ہال میں لالہ جی ملے کہنے لگے “مسٹر میں نے پھر آپ کو آواز دی تھی آپ نے جواب نہ دیا.”

میں نے زور کا قہقہ لگا کر کہا۔”اوہو! لالہ جی یاد نہیں۔میں نے آپ کو گڈ مارننگ کہا تھا میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا۔”

بولے” وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔اس کے بعد…. کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی… آپ بولے ہی نہیں؟

ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔گویا وہ پاگل ہو گئے ہیں اور پھر ذرا متعین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوری چڑھائے غور و فکر میں مصروف ہو گے۔ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک مجذوبانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکرا کے کہا”ہاں ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ میں اس وقت۔۔۔۔اے ۔۔۔اے۔۔۔نماز پڑھ رہا تھا۔”

لالہ جی مرعوب ہو کر چل دیئے اور ہم اپنے زہد و تقوی کی تسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔

اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہوگیا ہے۔جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔جاگنا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز۔!

جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ “ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب”ہو اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پرپیچ بالوں پر پڑ رہی ہوں۔کمرے میں پھولوں کی بو ہے سحری کی روح افزائیاں کر رہی ہو۔نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو۔

“تم جاگو موہن پیارے”

خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہوجائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کردے۔ چہرہ کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہوجائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کردے اور گیت”سانوری صورت توری من کو بای”کے ساتھ ہی شرم و حجاب میں ڈوب جائے۔

نصیب یہ ہے کہ پہلے”مسٹر! مسٹر “کی آواز اور دروازے کی دنادن سامع نوازی کرتی ہے اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کر دیتا ہے اور اس چار گھنٹے کے عرصے میں گڑیوں کے گرد پڑنے، دیگچیوں کے الٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کلیاں اور غرغرارے کرنے، کھنکارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کرلیجیے کہ انسانوں میں سرطال کی کس قدر گنجائش ہے۔

موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں